تمام عُمر اُسے مُجھ سے اِختِلاف رہارہا وہ گھر میں مِرے پر مِرے خِلاف رہاخبر نہِیں کہ تِرے من میں چل رہا یے کیا؟تِری طرف سے مِرا دِل ہمیشہ صاف رہابجا کہ رُتبہ کوئی عین قاف لام کا ہےبلند سب سے مگر عین شِین قاف رہامُجھے گُماں کہ کوئی مُجھ میں نقص بھی ہو گا؟رہا نقاب میں چہرہ، تہہِ غِلاف رہاکبھی تھا بِیچ میں پریوں کے، اب جِنوں کے بِیچیہ شہر میرے لیئے گویا کوہ قاف رہاوُہ شخص جِس کو سُکوں میرے بِن نہ آتا کہِیںنہِیں تھا میرا، نیا ایک اِنکشاف رہاخُدا کرے کہ وفا کا بھرم رہے قائممُعاملہ تھا بڑا صاف اور صاف رہامیں اپنے فن کا پُجاری ہوں دُوسروں کا نہِیںبڑا ہے وہ کہ جِسے سب کا اعتراف رہارشِیدؔ کوسا کِیا میں یہاں مُقدّر کووہاں چُھپا ہؤا سِینے میں اِک شِگاف رہارشِید حسرتؔ