بنا کے رکھا ہے ذہنی مرِیض ہم کو تونہیں ہے زِیست بھی ہرگز عزِیز ہم کو تووہ اور تھے کہ جِنہیں دوستی کا پاس رہاگُماں میں ڈال دے چھوٹی سی چِیز ہم کو توکہاں کے مِیر ہیں، پُوچھو فقِیر لوگوں سےنہِیں ہے ڈھب کی میسّر قمِیض ہم کو توبڑوں سے دِل سے عقِیدت ہے پیار چھوٹوں سےخیال کرتے ہو جو بد تمِیز ہم کو توکِسی کے درد کے سانچے میں ڈھل کے دیکھا ہےپڑے وہ زخم (کہ بس الحفِیظ) ہم کو تونہ راز، راز کو رکھا، نہ بھید پوشِیدہخیال پِھر بھی کریں سب رمِیز ہم کو تو رکھو جو درد تو، آہیں بھی اور کُچھ آنسورشیدؔ چاہئیں کُچھ خواب نِیز ہم کو تورشِید حسرتؔ