جو گِیت اوروں کے بے وجہ گانے لگتے ہیںتو ہوش دو ہی قدم میں ٹِھکانے لگتے ہیںبِگاڑنا تو تعلُّق کا ہے بہت آساںاِسے بنانے میں لیکِن زمانے لگتے ہیںکبھی وہ آ نہِیں سکتا کبھی ہے رنجِیدہمُجھے تو یہ کوئی جُھوٹے بہانے لگتے ہیںیہ سِین ہے کہ ملے ہیں وہ ایک مُدّت بعدمُہر بہ لب ہی ہتِھیلی دِکھانے لگتے ہیںکہاں ہے وقت کہ ہم دُوسروں کے غم بانٹیںکُچھ آشنا سے، کہانی سُنانے لگتے ہیںوہِیں پہ بزم ہی برخاست کر دی جاتی ہےکبھی کہِیں پہ جو محفِل سجانے لگتے ہیںاگرچہ لوگ نہِیں اُس گلی میں وہؔ آبادکرُوں میں کیا کہ قدم ڈگمگانے لگتے ہیں کِسی کے دِل کے لیئے بول دے جو مِیٹھے بولکوئی بتائے کیا اِس میں خزانے لگتے ہیں؟رشیدؔ ہم پہ محبّت شجر ہُؤا ممنُوعیہ سب رقِیب کے ہی تانے بانے لگتے ہیںرشِید حسرتؔ