ضرُوری خُود کو سمجھو یا نہِیں سمجھو، ضرُوری ہو

ضرُوری خُود کو سمجھو یا نہِیں سمجھو، ضرُوری ہو
بظاہر اِستعارہ قُرب کا، صدیوں کی دُوری ہو

اکڑ کر کہہ تو دیتے ہو کہ ہم ہیں جوہری طاقت
بہے گا خُون اِنساں کا، وہ ہو شاہیں کہ سُوری ہو

لو اب سے توڑ دیتے ہیں، جو محرُومی کے حلقے تھے
مِلائیں ہاں میں ہاں کب تک، کہاں تک جی حضُوری ہو

بڑی معصُوم خواہِش اب تو دِل میں سر اُٹھاتی ہے
کِسی دِن سامنا جو ہو تو دِل کی آس پُوری ہو

جنُوں کا مُعجزہ تھا ہم جو انگاروں پہ چل نِکلے
اداکاری کا وہ عالم کہ جُوں کوشِش شعُوری ہو

ہمیشہ کے لِیئے ہم یہ نگر ہی چھوڑ جائیں گے
مگر اِتنا کرے کوئی ضمانت تو عبُوری ہو

کمی تھوڑی سی رہ جائے تو مُمکِن ہے تدارُک بھی
تلافی ہو نہِیں سکتی کہ جب دِل ہی فتُوری ہو

ہمیں کرنا پڑے گا اِحترامِ آدمی لازِم
سراسر بالا تر ہو کر وہ ناری ہو کہ نُوری ہو

جِدھر دیکھو اُدھر اب موت کا سامان دِکھتا ہے
رشِید اپنی کہانی یہ نہ ہو آدھی ادھُوری ہو


رشِید حسرت

پناہ دے گا، کوئی سائباں تو وہ بھی نہِیں

پناہ دے گا، کوئی سائباں تو وہ بھی نہِیں
ہمیں فنا ہے مگر جاوِداں تو وہ بھی نہِیں


ہمارے پیار کی ناؤ پھنسی ہے بِیچ بھن٘ور
بچا کے لائے کوئی بادباں تو وہ بھی نہِیں

جو سچ کہیں تو خزاں اوڑھ کے بھی خُوش ہیں بہُت
نہِیں اُجاڑ مگر گُلسِتاں تو وہ بھی نہِیں

جہاں تلک بھی گئی آنکھ رِند بیٹھے تھے
نوازے سب کو جو پیرِ مُغاں تو وہ بھی نہِیں

تُمہارا پیار تھا مشرُوط لوٹنے سے مِرے
نِبھاؤ عہد ابھی درمیاں تو "وہ" بھی نہِیں

نظر میں ہو تو کہِیں ہم پلٹ کے نا دیکھیں
کِسی بہار کا ایسا سماں تو وہ بھی نہِیں

ہمارا نام حوالہ ہی اِس میں رنگ رہا
وگرنہ ایسی کوئی داستاں تو وہ بھی نہِیں

جو ایک شخص تُمہیں شاعری میں دِکھتا ہے
شریکِ شعر سہی ترجماں تو وہ بھی نہِیں

رشِید کی بھلا توصِیف کیا ضرُوری ہے؟
کرے ہے شاعری جادُو بیاں تو وہ بھی نہِیں


رشِید حسرت

ہمارا رُتبہ، تُمہارا مقام یاد رہے


ہمارا رُتبہ، تُمہارا مقام یاد رہے
خِرد سے دُور تُمہیں عقلِ خام یاد رہے

ادا کِیا تو ہے کِردار شاہ زادے کا
مگر غُلام ہو، ابنِ غُلام یاد رہے

ابھی ہیں شل مِرے بازُو سو ہاتھ کِھینچ لِیا
ضرُور لُوں گا مگر اِنتقام یاد رہے

نہِیں ابھی، تو تُمہیں جِس گھڑی ملے فُرصت
ہمارے ساتھ گُزارو گے شام یاد رہے

خمِیر میں ہے تُمہارے، بڑے بُھلکّڑ ہو
ابھی لِیا ہے جو ذِمّے تو کام یاد رہے

جو اپنے آپ کو شُعلہ بیاں بتاتے تھے
سو دی ہے اُن کی زباں کو لگام یاد رہے

بِچھڑ تو جانا ہے اِتنا گُمان رہتا ہے
لبوں کی مُہر، دِلوں کا پیام یاد رہے

یہ مُعجزہ بھی کوئی دِن تو دیکھنے کو مِلے
ہمارا ذِکر تُمہیں صُبح و شام یاد رہے

بجا کہ زیر کِیا تُم نے اپنے دُشمن کو
سنبھل سنبھل کے رکھو اب بھی گام یاد رہے

نہ ہو کہ اور کہِیں دِن کا کھانا کھا بیٹھو
ہمارے ساتھ ہے کل اِہتمام یاد رہے

رشِید اُن کو کوئی بات یاد ہو کہ نہ ہو
مگر تُمہارا وہ جُھک کر سلام یاد رہے


رشِید حسرتؔ

میں تیرے سنگ ابھی اور چل نہِیں سکتا

میں تیرے سنگ ابھی اور چل نہِیں سکتا
لِکھا گیا جو مُقدّر میں ٹل نہِیں سکتا

ہر ایک گام پہ کانٹوں کا سامنا تو ہے
چُنا جو راستہ، رستہ بدل نہِیں سکتا

میں بُھوک جھیل کے فاقوں سے مر تو سکتا ہُوں
ٗملیں جو بِھیک میں ٹُکڑوں پہ پل نہِیں سکتا

قسم جو کھائی تو مر کر بھی لاج رکھ لُوں گا
کہ راز دوست کا اپنے اُگل نہِیں سکتا

بھلے ہو جِسم پہ پوشاک خستہ حال مگر
لِباس تن پہ محبّت کا گل نہِیں سکتا

زمِیں پہ فصل سروں کی اُگانے چل تو دِیئے
مگر یہ پودا کبھی پُھول پھل نہِیں سکتا

رکھی خُدا نے کوئی سِل سی میرے سِینے میں
سو اِس میں پیار کا جذبہ مچل نہِیں سکتا

وہ اور لوگ تھے روشن ہیں تُربتیں جِن کی
دِیا مزار پہ میرے تو جل نہِیں سکتا

رشِید صدمے کئی ہنس کے جھیل سکتا ہوں
کِسی کلی کا مگر دِل مسل نہِیں سکتا


رشِید حسرتؔ

غزل۔

غزل۔

میں تیرے سنگ ابھی اور چل نہِیں سکتا
لِکھا گیا جو مُقدّر میں ٹل نہِیں سکتا

ہر ایک گام پہ کانٹوں کا سامنا تو ہے
چُنا جو راستہ، رستہ بدل نہِیں سکتا

میں بُھوک جھیل کے فاقوں سے مر تو سکتا ہُوں
ٗملیں جو بِھیک میں ٹُکڑوں پہ پل نہِیں سکتا

قسم جو کھائی تو مر کر بھی لاج رکھ لُوں گا
کہ راز دوست کا اپنے اُگل نہِیں سکتا

بھلے ہو جِسم پہ پوشاک خستہ حال مگر
لِباس تن پہ محبّت کا گل نہِیں سکتا

زمِیں پہ فصل سروں کی اُگانے چل تو دِیئے
مگر یہ پودا کبھی پُھول پھل نہِیں سکتا

رکھی خُدا نے کوئی سِل سی میرے سِینے میں
سو اِس میں پیار کا جذبہ مچل نہِیں سکتا

وہ اور لوگ تھے روشن ہیں تُربتیں جِن کی
دِیا مزار پہ میرے تو جل نہِیں سکتا

رشِید صدمے کئی ہنس کے جھیل سکتا ہوں
کِسی کلی کا مگر دِل مسل نہِیں سکتا


رشِید حسرتؔ

مُجھے ایسے تُمہیں نا آزمانا چاہِیے تھا

مُجھے ایسے تُمہیں نا آزمانا چاہِیے تھا
بتا کر ہی تُمہارے شہر آنا چاہِیے تھا

مِرے ہر ہر قدم پر شک کی نظریں ہیں تُمہاری
تُمہیں تو رُوٹھنے کا بس بہانا چاہِیے تھا

مِرے بچّے گئے ہیں کل سے پِکنِک کا بتا کر
نہِیں آئے ابھی تک، اُن کو آنا چاہِیے تھا

نجانے کِس لِیئے تھا رات سنّاٹوں کا پہرہ
مُجھے محفل میں تھوڑا گُنگُنانا چاہِیے تھا

کما کر میں جواں بچّوں کو پالُوں، بُوڑھا ہو کر
یہ بے حِس ہیں اِنہیں ہر حال (کھانا) چاہِیے تھا

ہُوئی ہوگی مِری تاخِیر سے لوگوں کو زحمت
مُعافی دو مُجھے بر وقت آنا چاہِیے تھا

بہُت ہی مُختصر تھا ساتھ اپنا اور تُمہارا
مگر تُم کو بُھلانے کو زمانہ چاہِیے تھا

کُھلی جو بات لوگوں نے اُچھالا کھول کے جی
اُنہیں تو گُفتگُو کو اِک فسانہ چاہِیے تھا

کِسی دِل کا کُھلا در دیکھ کر ہم آن بیٹھے
ہمیں تو سر چُھپانے کو ٹِھکانہ چاہِیے تھا

لگایا رتجگوں کا جِس نے اِن آنکھوں میں کاجل
سُکوں ایسے سِتم گر کا چُرانا چاہِیے تھا

رشِید اب تک گُناہوں میں گزاری زندگانی
تُمہیں تھوڑی سی نیکی بھی کمانا چاہِیے تھا


رشِید حسرتؔ


Don't have an account? Sign up

Forgot your password?

Error message here!

Error message here!

Hide Error message here!

Error message here!

OR
OR

Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link to create a new password.

Error message here!

Back to log-in

Close