جو گِیت اوروں کے بے وجہ گانے لگتے ہیں


جو گِیت اوروں کے بے وجہ گانے لگتے ہیں
تو ہوش دو ہی قدم میں ٹِھکانے لگتے ہیں

بِگاڑنا تو تعلُّق کا ہے بہت آساں
اِسے بنانے میں لیکِن زمانے لگتے ہیں

کبھی وہ آ نہِیں سکتا کبھی ہے رنجِیدہ
مُجھے تو یہ کوئی جُھوٹے بہانے لگتے ہیں

یہ سِین ہے کہ ملے ہیں وہ ایک مُدّت بعد
مُہر بہ لب ہی ہتِھیلی دِکھانے لگتے ہیں

کہاں ہے وقت کہ ہم دُوسروں کے غم بانٹیں
کُچھ آشنا سے، کہانی سُنانے لگتے ہیں

وہِیں پہ بزم ہی برخاست کر دی جاتی ہے
کبھی کہِیں پہ جو محفِل سجانے لگتے ہیں

اگرچہ لوگ نہِیں اُس گلی میں وہؔ آباد
کرُوں میں کیا کہ قدم ڈگمگانے لگتے ہیں

کِسی کے دِل کے لیئے بول دے جو مِیٹھے بول
کوئی بتائے کیا اِس میں خزانے لگتے ہیں؟

رشیدؔ ہم پہ محبّت شجر ہُؤا ممنُوع
یہ سب رقِیب کے ہی تانے بانے لگتے ہیں

رشِید حسرتؔ

بنا کے رکھا ہے ذہنی مرِیض ہم کو تو


بنا کے رکھا ہے ذہنی مرِیض ہم کو تو
نہیں ہے زِیست بھی ہرگز عزِیز ہم کو تو

وہ اور تھے کہ جِنہیں دوستی کا پاس رہا
گُماں میں ڈال دے چھوٹی سی چِیز ہم کو تو

کہاں کے مِیر ہیں، پُوچھو فقِیر لوگوں سے
نہِیں ہے ڈھب کی میسّر قمِیض ہم کو تو

بڑوں سے دِل سے عقِیدت ہے پیار چھوٹوں سے
خیال کرتے ہو جو بد تمِیز ہم کو تو

کِسی کے درد کے سانچے میں ڈھل کے دیکھا ہے
پڑے وہ زخم (کہ بس الحفِیظ) ہم کو تو

نہ راز، راز کو رکھا، نہ بھید پوشِیدہ
خیال پِھر بھی کریں سب رمِیز ہم کو تو

رکھو جو درد تو، آہیں بھی اور کُچھ آنسو
رشیدؔ چاہئیں کُچھ خواب نِیز ہم کو تو

رشِید حسرتؔ

ہستی کا مِری حشر بپا دیکھتے ہوئے


ہستی کا مِری حشر بپا دیکھتے ہوئے
وہ رو ہی دیا مُجھ کو بُجھا دیکھتے ہوئے

ہم وہ کہ کبھی وقت سے بھی ہار نہ مانی
برباد کِیا آپ نے کیا دیکھتے ہوئے

انجان ہوئی راہ، بڑا سخت تعیُّن
قِبلے کا، بِنا قِبلہ نُما دیکھتے ہوئے

مرمر تھا ماں کی قبر پہ نہ باپ کی کبھی
حیرت سِی لگی کتبہ لگا دیکھتے ہوئے

سوتے ہیں ابھی رات بہُت بِیت چکی ہے
میں رات اُٹھا ایک بجا دیکھتے ہوئے

جو مِیرے اِشارے پہ فِدا ہوتے ہمیشہ
مُنہ پھیر گئے وقت بُرا دیکھتے ہوئے

بوسِیدہ ہو کے چاک ہوئی ہے جگہ جگہ
مزدُور کے جو تن پہ قبا، دیکھتے ہوئے

کُچھ اور سوا آئی مُجھے یاد مِری ماں
اِک پیڑ گھنا گھر میں لگا دیکھتے ہوئے

لوٹ آ تُو مِرے دوست تِرے بعد مِری چشم
نمناک ہے محفِل کو سجا دیکھتے ہوئے

کر شُکر ادا اُس کی جگہ پر جو نہیں تُو
تذلِیل نہ کر اُس کی، گدا دیکھتے ہوئے

گُڑیا نے کہا "بابا" مُجھے ڈُھونڈو تو جانوں
انجان بنا اُس کو چُھپا دیکھتے ہوئے

اب دِل میں کدُورت کا سبب ہونے لگے ہیں
جو فاصلے ہیں بِیچ وبا دیکھتے ہوئے

بیٹی جو کہا ہے تو تُجھے مانا ہے بیٹی
حسرت نے فقط تُجھ میں حیا دیکھتے ہوئے

رشِید حسرتؔ

Don't have an account? Sign up

Forgot your password?

Error message here!

Error message here!

Hide Error message here!

Error message here!

OR
OR

Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link to create a new password.

Error message here!

Back to log-in

Close