بِتا تو دی ہے مگر زِیست بار جیسی تھیتمام عُمر مِری اِنتظار جیسی تھیحیات کیا تھی، فقط اِنتشار میں گُزریگہے تھی زخم سی گاہے قرار جیسی تھیمِلا ہُؤا مِری چائے میں رات کُچھ تو تھاکہ شب گئے مِری حالت خُمار جیسی تھیتُمہاری یاد کی خُوشبُو کے دائروں میں رہااگرچہ زرد رہی، پر بہار جیسی تھیتُمہارے ہِجر کے موسم میں، کیا کہُوں حالتکبھی اُجاڑ، کبھی تو سِنگھار جیسی تھیرہی ہے گِرد مِرے حلقہ اپنا تنگ کِیئےحیات جیسے کِسی اِک حِصار جیسی تھیوہ رات جِس سے میں شب بھر لِپٹ کے روتا رہارشِیدؔ شب تھی مگر غمگُسار جیسی تھیرشِید حسرتؔ