مُجھے ایسے تُمہیں نا آزمانا چاہِیے تھابتا کر ہی تُمہارے شہر آنا چاہِیے تھامِرے ہر ہر قدم پر شک کی نظریں ہیں تُمہاری تُمہیں تو رُوٹھنے کا بس بہانا چاہِیے تھامِرے بچّے گئے ہیں کل سے پِکنِک کا بتا کرنہِیں آئے ابھی تک، اُن کو آنا چاہِیے تھانجانے کِس لِیئے تھا رات سنّاٹوں کا پہرہ مُجھے محفل میں تھوڑا گُنگُنانا چاہِیے تھاکما کر میں جواں بچّوں کو پالُوں، بُوڑھا ہو کریہ بے حِس ہیں اِنہیں ہر حال (کھانا) چاہِیے تھاہُوئی ہوگی مِری تاخِیر سے لوگوں کو زحمتمُعافی دو مُجھے بر وقت آنا چاہِیے تھابہُت ہی مُختصر تھا ساتھ اپنا اور تُمہارامگر تُم کو بُھلانے کو زمانہ چاہِیے تھاکُھلی جو بات لوگوں نے اُچھالا کھول کے جیاُنہیں تو گُفتگُو کو اِک فسانہ چاہِیے تھاکِسی دِل کا کُھلا در دیکھ کر ہم آن بیٹھےہمیں تو سر چُھپانے کو ٹِھکانہ چاہِیے تھالگایا رتجگوں کا جِس نے اِن آنکھوں میں کاجلسُکوں ایسے سِتم گر کا چُرانا چاہِیے تھارشِید اب تک گُناہوں میں گزاری زندگانیتُمہیں تھوڑی سی نیکی بھی کمانا چاہِیے تھارشِید حسرتؔ