غزل۔

غزل۔

میں تیرے سنگ ابھی اور چل نہِیں سکتا
لِکھا گیا جو مُقدّر میں ٹل نہِیں سکتا

ہر ایک گام پہ کانٹوں کا سامنا تو ہے
چُنا جو راستہ، رستہ بدل نہِیں سکتا

میں بُھوک جھیل کے فاقوں سے مر تو سکتا ہُوں
ٗملیں جو بِھیک میں ٹُکڑوں پہ پل نہِیں سکتا

قسم جو کھائی تو مر کر بھی لاج رکھ لُوں گا
کہ راز دوست کا اپنے اُگل نہِیں سکتا

بھلے ہو جِسم پہ پوشاک خستہ حال مگر
لِباس تن پہ محبّت کا گل نہِیں سکتا

زمِیں پہ فصل سروں کی اُگانے چل تو دِیئے
مگر یہ پودا کبھی پُھول پھل نہِیں سکتا

رکھی خُدا نے کوئی سِل سی میرے سِینے میں
سو اِس میں پیار کا جذبہ مچل نہِیں سکتا

وہ اور لوگ تھے روشن ہیں تُربتیں جِن کی
دِیا مزار پہ میرے تو جل نہِیں سکتا

رشِید صدمے کئی ہنس کے جھیل سکتا ہوں
کِسی کلی کا مگر دِل مسل نہِیں سکتا


رشِید حسرتؔ

Don't have an account? Sign up

Forgot your password?

Error message here!

Error message here!

Hide Error message here!

Error message here!

OR
OR

Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link to create a new password.

Error message here!

Back to log-in

Close