غزل۔میں تیرے سنگ ابھی اور چل نہِیں سکتالِکھا گیا جو مُقدّر میں ٹل نہِیں سکتاہر ایک گام پہ کانٹوں کا سامنا تو ہےچُنا جو راستہ، رستہ بدل نہِیں سکتامیں بُھوک جھیل کے فاقوں سے مر تو سکتا ہُوںٗملیں جو بِھیک میں ٹُکڑوں پہ پل نہِیں سکتاقسم جو کھائی تو مر کر بھی لاج رکھ لُوں گاکہ راز دوست کا اپنے اُگل نہِیں سکتابھلے ہو جِسم پہ پوشاک خستہ حال مگرلِباس تن پہ محبّت کا گل نہِیں سکتا زمِیں پہ فصل سروں کی اُگانے چل تو دِیئےمگر یہ پودا کبھی پُھول پھل نہِیں سکتا رکھی خُدا نے کوئی سِل سی میرے سِینے میںسو اِس میں پیار کا جذبہ مچل نہِیں سکتاوہ اور لوگ تھے روشن ہیں تُربتیں جِن کیدِیا مزار پہ میرے تو جل نہِیں سکتارشِید صدمے کئی ہنس کے جھیل سکتا ہوںکِسی کلی کا مگر دِل مسل نہِیں سکتارشِید حسرتؔ