ہمارا رُتبہ، تُمہارا مقام یاد رہےخِرد سے دُور تُمہیں عقلِ خام یاد رہےادا کِیا تو ہے کِردار شاہ زادے کامگر غُلام ہو، ابنِ غُلام یاد رہےابھی ہیں شل مِرے بازُو سو ہاتھ کِھینچ لِیاضرُور لُوں گا مگر اِنتقام یاد رہےنہِیں ابھی، تو تُمہیں جِس گھڑی ملے فُرصتہمارے ساتھ گُزارو گے شام یاد رہےخمِیر میں ہے تُمہارے، بڑے بُھلکّڑ ہوابھی لِیا ہے جو ذِمّے تو کام یاد رہےجو اپنے آپ کو شُعلہ بیاں بتاتے تھےسو دی ہے اُن کی زباں کو لگام یاد رہےبِچھڑ تو جانا ہے اِتنا گُمان رہتا ہےلبوں کی مُہر، دِلوں کا پیام یاد رہےیہ مُعجزہ بھی کوئی دِن تو دیکھنے کو مِلےہمارا ذِکر تُمہیں صُبح و شام یاد رہےبجا کہ زیر کِیا تُم نے اپنے دُشمن کوسنبھل سنبھل کے رکھو اب بھی گام یاد رہےنہ ہو کہ اور کہِیں دِن کا کھانا کھا بیٹھوہمارے ساتھ ہے کل اِہتمام یاد رہےرشِید اُن کو کوئی بات یاد ہو کہ نہ ہومگر تُمہارا وہ جُھک کر سلام یاد رہےرشِید حسرتؔ