کہاں ہے پیار کی تھپکی، پذِیرائی کہاں ہےتبھی تو شاعری میں دوست گہرائی کہاں ہےمیں کِس کے سامنے اپنا دلِ بیتاب کھولوںنیا ہوں شہر میں اب تک شناسائی کہاں ہےکبھی تھی اِن سے وابستہ کہانی، جانتے ہوسجی تو ہیں مگر آنکھوں میں بِینائی کہاں ہےمُجھے دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے تھےابھی سوچوں گلی، کُوچے وہ ہمسائی کہاں ہےمبادا بُھول بیٹُھوں میں تُمہارا ناک نقشہکہاں ہے بے وفا تُو، میرے ہرجائی کہاں ہے؟؟جگر پر جا بجا سرطان پلتے ہیں، مسِیحا!تُمہاری چشم تاثیریں، مسیحائی کہاں ہے؟مُجھے تسلِیم جذبے ڈھل چکےہیں میرے لیکنتُمہارے حسن کی پہلی سی رعنائی کہاں ہے؟اِرادے سے نہیں بس بے اِرادہ پُوچھ بیٹھاکمانیں کھینچ کے رکھتی وہ انگڑائی کہاں ہےمیں اپنے آپ کو بے وجہ قیدی مانتا ہوںکِسی نے زُلف کی زنجِیر پہنائی کہاں ہےنہیں روٹی تو ہم کو چاہیئے کھائیں سموسےہمارے ہاں تو سب اچّھا ہے، مہنگائی کہاں ہے؟سُنائی دے رہے ہیں چار سُو اب غم کے نوحےکبھی گونجی تھی جو حسرتؔ وہ شہنائی کہاں ہے رشید حسرتؔ