دیکھو تو مِرے دِل پہ یہ جو چھالا ہُؤا ہےاِس واسطے تو پیار کو بھی ٹالا ہُؤا ہےہاں کر دو مِری جان اگر آیا ہے رِشتہاور لڑکا بھی تو دیکھا ہؤا، بھالا ہُؤا ہےسب چھوڑ کے آئے تھے، مگر (آج کراچیؔ)ہم بِچھڑے ہُوؤں کے لِیےانبالہؔ ہُؤا ہےمیں کب کا بِکھر جاتا غمِ دہر کے ہاتھوںبس گِرد مِرے غم کا تِرے جالا ہُؤا ہےہوتا ہُوں اکیلا تو مُجھے آ کے سنبھالے اِک درد کہ بے درد سا جو پالا ہُؤا ہےدکھ درد کِسی اور کا، بے چین مِرا دِلیُوں درد کے سانچے میں اِسے ڈھالا ہؤا ہےکیا بات کرؤں کیا مِری اوقات رفِیقوجُنبِش کے لِیئے لب پہ مِرے تالا ہُُؤا ہےکیا لاج رہی تیری اگر آج بہم ہیںاے پیار کے دُشمن تِرا مُنہ کالا ہُؤا ہےآنکھوں پہ کہوں شعر یا میں گھر کو سنبھالوںحسرتؔ نے پرکھشا میں مُجھے ڈالا ہؤا ہےرشید حسرتؔ