یادوں کا سنسار۔زباں کا مُنہ میں اِک ٹکڑا سا جو بیکار رکھا ہےیہ میرا ظرف ہے لب پر نہ کُچھ اِظہار رکھا ہےمِرے اپنوں نے ہی مُجھ کو حقارت سے ہے ٹُھکرایاکہوں کیا دِل میں شِکووں کا بس اِک انبار رکھا ہےیہ سوچا تھا محل سپنوں کا ہی تعمِیر کر لیں گےمگر تُم نے ہمیشہ کو روا انکار رکھا ہےچلو تسلیم کر لیتے ہیں، تُم نے جو کِیا اچّھاکہاں اُجڑی ہوئی یادوں کا وہ سنسار رکھا ہے۔مُبارک ھو تُمہیں اِک ھمسفر کا ہم سفر ہونانئے ساتھی کا اب کے نام کیا 'سرکار" رکھا ہے۔سدا مسرور رکھا ہے جسے شِیریں سُخنی سےاُسی کے تلخ لہجوں نے مُجھے آزار رکھا ہے اگرچہ فاصلے ہیں بِیچ میں حائل مگر حسرتؔتُمہاری یاد سے دِل کو گُل و گُلزار رکھا ہے۔رشید حسرتؔ۔