کچھ نہیں تعلّق پر، میرا نام گُوگل پر لکھ کے سرچ کِیجے گاشعر ہیں مِرے پِھیکے پِھر بھی ہے توقع سِیکُھل کے داد دِیجئے گابات کیا قبا کی ہو، اے مِرے رفُوگر دیکھ، دل بھی اب دریدہ ہےکام کر توجہ سے، چھید نا رہے باقی سارے چاک سِیجے گاچاہتے ہو گر یارو لُطف ماورا آئے، آبِ آتشیں سے، تواشک مُ الخبائث میں اے مِرے رفیقو بس اب ملا کے پِِیجے گاآپ ہیں دُکھی تو ہوں، مُجھ سے کیا بھلا مطلب آپ کو پتہ تو ہےآپ کے دُکھوں پہ ہی مُجھ سے پتھر دِل کا دِل کِس لیئے پسِیجے گا؟ڈوبنے کو ہے لوگو میرے پیار کی ناؤ، بوجھ کیسے ہلکا ہوقرض ہے محبت کا، اور جس کا جتنا ہے آ کے مجھ سے لیجئے گاآنکھ بھی دِکھائیں گے، دھونس دھمکی بھی دیں گے کیونکہ یہ کمینے ہیںگھاگ ہیں سیاسی لوگ، اے مِرے قلمکارو اِن سے مٹ دبِیجے گابے رِدا کیا اِس کو، اُس کا گھر جلا ڈالا کون آپ سے پُوچھےان غریب لوگوں کا اے رشیدؔ ان داتا آپ ہی کہِیجے گا۔ رشِید حسرتؔ۔