غزلدیکھا نہ کبھی تُم نے سُنا، دیکھتا ہوں میںبس تُم کو نہیں اِس کا پتا دیکھتا ہوں میںچہروں کی لکِیروں کے مُجھے قاعدے از برپڑھتا ہوں وہی جو بھی لِکھا دیکھتا ہوں میںماضی کے جھروکوں سے نہیں جھانک ابھی تُو(غش کھا کے گِرا) شخص پڑا دیکھتا ہوں میںکہنے کو تِرا شہر بہُت روشن و تاباںہر چہرہ مگر اِس میں بُجھا دیکھتا ہوں میںگُلشن میں خزاں رُت ہے سمن پِیلے پڑے ہیںجاتے ہی تِرے زِیست سے، کیا دیکھتا ہوں میںاُس پار گیا جو بھی نہیں لوٹ کے آیاکیا بھید چُھپا اِس میں سو جا دیکھتا ہوں میںوہ جِس کے بنا زِیست مِری آدھی ادھوریرُخ کیسے بدلتا ہے، ادا دیکھتا ہوں میںاے دوست نہ بہلا کہ ہوئی بِیچ میں حائلکم ہو نہ کبھی جو، وہ خلا دیکھتا ہوں میںویران مِرے دل کا نگر جِس نے بتایاجُھوٹا ہے، رشیدؔ اِس کو سجا دیکھتا ہوں میںرشید حسرتؔ