غزل

غزل
نئی کہانی، نیا فسانہ، نئے ہی لوگوں میں آنا جانا
کہاں سے سِیکھا مِرے سِتمگر کِسی کا دل یُوں دُکھانا۔ جانا

تُجھے ہے جانا جو روند کر یُوں محبتّوں کو تو شوق سے جا
مِری عقِیدت میں کیا کمی تھی سبب خُدارا بتانا۔ جانا

یہ کِس نے تُجھ سے کہا کہ تُجھ سے بِچھڑ کے جِیون خزاؤں جیسا
تِرے ہی غم کی بہار کو ہی تو دوست میں نے خزانہ جانا

مجھے محبّت کی چار دن کی کہانی پہلے ہی کُھل چُکی تھی
اِِسی لیئے اپنی زِندگی میں تو تیرے آنے کو جانا جانا

بجا کہ تُجھ کو عقِیدتوں کےنئے خزانے مِلا کریں گے
ملال ہو گا سماں بہاروں کا چھوڑ کر تُو سہانا جا۔نا

مُجھے ہے ناموس و نامِ آبا کی پاسداری مِرے رفِیقو
مِرے لِیئے ہے بڑا ہی اعزاز اُن کے ناموں سے جانا جانا

رشِیدؔ کیسی یہ اُلجھنیں ہیں، نجانے کیا روگ پالتا ہے
جو جان تُجھ پر چِھڑک رہے ہیں، کہیں سِتم اُن پہ ڈھا نہ جانا

رشِید حسرتؔ

Don't have an account? Sign up

Forgot your password?

Error message here!

Error message here!

Hide Error message here!

Error message here!

OR
OR

Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link to create a new password.

Error message here!

Back to log-in

Close