مزدور
By arsh-malsiyaniOctober 27, 2020
جون کی گرمی کڑکتی دھوپ لو چلتی ہوئی
ہر گھڑی مزدور کے سر سے قضا ٹلتی ہوئی
سر پہ گارے کی کڑھائی اور دیوار بلند
ہانپتا وہ چڑھ رہا ہے لے کے ہمت کی کمند
پاڑ پر پہنچا تو اک گالی سنی معمار سے
جی میں آیا سر کو ٹکرا دے اسی دیوار سے
ہائے اس مظلوم کی مجبوریاں نا چاریاں
جان کا آزار ہیں افلاس کی بیماریاں
دل میں کہتا ہے کہ یہ معمار بھی مزدور ہے
پھر یہی جان حزیں کیوں اس قدر مقہور ہے
اس کی اجرت مجھ سے دگنی ہے مگر کم ہے شعور
تمکنت کس بات پر کس چیز پر اتنا غرور
میں اگر نادار ہوں یہ بھی نہیں سرمایہ دار
بھوت وہ ہے کس بڑائی کا جو اس پر ہے سوار
اینٹ گارا میں نہ دوں اس کو تو یہ کس کام کا
اصل میں معمار میں ہوں یہ فقط ہے نام کا
میری ہمت کہہ رہیں ہیں کاخ دیوان بلند
آہ اس پر بھی میں دنیا میں ہوں اتنا مستمند
لگ گیا پھر کام میں یہ سوچ کر وہ بد نصیب
اے خدا دنیا میں اتنا بھی نہ ہو کوئی غریب
دن ڈھلا جس وقت مالک بھی مکاں کا آ گیا
اک سکوت مرگ سا دیوار و در پر چھا گیا
کانپتا رہتا ہے ہر مزدور جس کے نام سے
سب اسی دھن میں تھے وہ خوش ہو ہمارے کام سے
اس کی پیشانی پہ لیکن بل ذرا آنے لگے
پھن اٹھا کر تمکنت کے سانپ لہرانے لگے
سب سے پہلے اس نے گالی دی اسی معمار کو
اپنی ملکیت جو سمجھا تھا ہر اک دیوار کو
جوش نخوت سے کہا اس نے کہ اے پاجی لعیں
کل جہاں تک تھی گئی دیوار اب بھی ہے وہیں
کیا کیا ہے تو نے دن بھر میں ذرا مجھ کو بتا
یوں تکبر میں وہ آ کر جائزہ لینے لگا
دل میں وہ مزدور پھر کہنے لگا اف رے غضب
جو بھی اس دنیا میں ہیں فرعون ہیں وہ سب کے سب
جس کا جس پر بس چلے پامال کرتا ہے اسے
خود اگر خوش حال ہے بد حال کرتا ہے اسے
کیا کہوں سرمایہ داروں کے ستم کی داستاں
دیدۂ مزدور ہے مزدور سے بھی خونفشاں
جس کی لاٹھی اس کی بھینس اس مثل کو صادق سمجھ
یہ سمجھ کر اس خدائے پاک کو رازق سمجھ
ہر گھڑی مزدور کے سر سے قضا ٹلتی ہوئی
سر پہ گارے کی کڑھائی اور دیوار بلند
ہانپتا وہ چڑھ رہا ہے لے کے ہمت کی کمند
پاڑ پر پہنچا تو اک گالی سنی معمار سے
جی میں آیا سر کو ٹکرا دے اسی دیوار سے
ہائے اس مظلوم کی مجبوریاں نا چاریاں
جان کا آزار ہیں افلاس کی بیماریاں
دل میں کہتا ہے کہ یہ معمار بھی مزدور ہے
پھر یہی جان حزیں کیوں اس قدر مقہور ہے
اس کی اجرت مجھ سے دگنی ہے مگر کم ہے شعور
تمکنت کس بات پر کس چیز پر اتنا غرور
میں اگر نادار ہوں یہ بھی نہیں سرمایہ دار
بھوت وہ ہے کس بڑائی کا جو اس پر ہے سوار
اینٹ گارا میں نہ دوں اس کو تو یہ کس کام کا
اصل میں معمار میں ہوں یہ فقط ہے نام کا
میری ہمت کہہ رہیں ہیں کاخ دیوان بلند
آہ اس پر بھی میں دنیا میں ہوں اتنا مستمند
لگ گیا پھر کام میں یہ سوچ کر وہ بد نصیب
اے خدا دنیا میں اتنا بھی نہ ہو کوئی غریب
دن ڈھلا جس وقت مالک بھی مکاں کا آ گیا
اک سکوت مرگ سا دیوار و در پر چھا گیا
کانپتا رہتا ہے ہر مزدور جس کے نام سے
سب اسی دھن میں تھے وہ خوش ہو ہمارے کام سے
اس کی پیشانی پہ لیکن بل ذرا آنے لگے
پھن اٹھا کر تمکنت کے سانپ لہرانے لگے
سب سے پہلے اس نے گالی دی اسی معمار کو
اپنی ملکیت جو سمجھا تھا ہر اک دیوار کو
جوش نخوت سے کہا اس نے کہ اے پاجی لعیں
کل جہاں تک تھی گئی دیوار اب بھی ہے وہیں
کیا کیا ہے تو نے دن بھر میں ذرا مجھ کو بتا
یوں تکبر میں وہ آ کر جائزہ لینے لگا
دل میں وہ مزدور پھر کہنے لگا اف رے غضب
جو بھی اس دنیا میں ہیں فرعون ہیں وہ سب کے سب
جس کا جس پر بس چلے پامال کرتا ہے اسے
خود اگر خوش حال ہے بد حال کرتا ہے اسے
کیا کہوں سرمایہ داروں کے ستم کی داستاں
دیدۂ مزدور ہے مزدور سے بھی خونفشاں
جس کی لاٹھی اس کی بھینس اس مثل کو صادق سمجھ
یہ سمجھ کر اس خدائے پاک کو رازق سمجھ
56416 viewsnazm • Urdu