ٹکڑے نہیں ہیں آنسوؤں میں دل کے چار پانچ
By bahadur-shah-zafarApril 23, 2024
ٹکڑے نہیں ہیں آنسوؤں میں دل کے چار پانچ
سرخاب بیٹھے پانی میں ہیں مل کے چار پانچ
منہ کھولے ہیں یہ زخم جو بسمل کے چار پانچ
پھر لیں گے بوسے خنجر قاتل کے چار پانچ
کہنے ہیں مطلب ان سے ہمیں دل کے چار پانچ
کیا کہیے ایک منہ ہیں وہاں مل کے چار پانچ
دریا میں گر پڑا جو مرا اشک ایک گرم
بت خانے لب پہ ہو گئے ساحل کے چار پانچ
دو چار لاشے اب بھی پڑے تیرے در پہ ہیں
اور آگے دب چکے ہیں تلے گل کے چار پانچ
راہیں ہیں دو مجاز و حقیقت ہے جن کا نام
رستے نہیں ہیں عشق کی منزل کے چار پانچ
رنج و تعب مصیبت و غم یاس و درد و داغ
آہ و فغاں رفیق ہیں یہ دل کے چار پانچ
دو تین جھٹکے دوں جوں ہی وحشت کے زور میں
زنداں میں ٹکڑے ہوویں سلاسل کے چار پانچ
فرہاد و قیس و وامق و عذرا تھے چار دوست
اب ہم بھی آ ملے تو ہوئے مل کے چار پانچ
ناز و ادا و غمزہ نگہ پنجۂ مژہ
ماریں ہیں ایک دل کو یہ پل پل کے چار پانچ
ایما ہے یہ کہ دیویں گے نو دن کے بعد دل
لکھ بھیجے خط میں شعر جو بیدل کے چار پانچ
ہیرے کے نورتن نہیں تیرے ہوئے ہیں جمع
یہ چاندنی کے پھول مگر کھل کے چار پانچ
مینائے نہہ فلک ہے کہاں بادۂ نشاط
شیشے ہیں یہ تو زہر ہلاہل کے چار پانچ
ناخن کریں ہیں زخموں کو دو دو ملا کے ایک
تھے آٹھ دس سو ہو گئے اب چھل کے چار پانچ
گر انجم فلک سے بھی تعداد کیجئے
نکلیں زیادہ داغ مرے دل کے چار پانچ
ماریں جو سر پہ سل کو اٹھا کر قلق سے ہم
دس پانچ ٹکڑے سر کے ہوں اور سل کے چار پانچ
مان اے ظفرؔ تو پنج تن و چار یار کو
ہیں صدر دین کی یہی محفل کے چار پانچ
سرخاب بیٹھے پانی میں ہیں مل کے چار پانچ
منہ کھولے ہیں یہ زخم جو بسمل کے چار پانچ
پھر لیں گے بوسے خنجر قاتل کے چار پانچ
کہنے ہیں مطلب ان سے ہمیں دل کے چار پانچ
کیا کہیے ایک منہ ہیں وہاں مل کے چار پانچ
دریا میں گر پڑا جو مرا اشک ایک گرم
بت خانے لب پہ ہو گئے ساحل کے چار پانچ
دو چار لاشے اب بھی پڑے تیرے در پہ ہیں
اور آگے دب چکے ہیں تلے گل کے چار پانچ
راہیں ہیں دو مجاز و حقیقت ہے جن کا نام
رستے نہیں ہیں عشق کی منزل کے چار پانچ
رنج و تعب مصیبت و غم یاس و درد و داغ
آہ و فغاں رفیق ہیں یہ دل کے چار پانچ
دو تین جھٹکے دوں جوں ہی وحشت کے زور میں
زنداں میں ٹکڑے ہوویں سلاسل کے چار پانچ
فرہاد و قیس و وامق و عذرا تھے چار دوست
اب ہم بھی آ ملے تو ہوئے مل کے چار پانچ
ناز و ادا و غمزہ نگہ پنجۂ مژہ
ماریں ہیں ایک دل کو یہ پل پل کے چار پانچ
ایما ہے یہ کہ دیویں گے نو دن کے بعد دل
لکھ بھیجے خط میں شعر جو بیدل کے چار پانچ
ہیرے کے نورتن نہیں تیرے ہوئے ہیں جمع
یہ چاندنی کے پھول مگر کھل کے چار پانچ
مینائے نہہ فلک ہے کہاں بادۂ نشاط
شیشے ہیں یہ تو زہر ہلاہل کے چار پانچ
ناخن کریں ہیں زخموں کو دو دو ملا کے ایک
تھے آٹھ دس سو ہو گئے اب چھل کے چار پانچ
گر انجم فلک سے بھی تعداد کیجئے
نکلیں زیادہ داغ مرے دل کے چار پانچ
ماریں جو سر پہ سل کو اٹھا کر قلق سے ہم
دس پانچ ٹکڑے سر کے ہوں اور سل کے چار پانچ
مان اے ظفرؔ تو پنج تن و چار یار کو
ہیں صدر دین کی یہی محفل کے چار پانچ
92314 viewsghazal • Urdu