عافیت کہتی ہے پھر ایک ستم گر کو بلائیں

By khursheed-rizviFebruary 27, 2024
عافیت کہتی ہے پھر ایک ستم گر کو بلائیں
ریگ ساحل کی طرح اپنے سمندر کو بلائیں
جو نظر بھی نہیں آتا اسے دل میں رکھ لیں
وہ جو باہر بھی نہیں ہے اسے اندر کو بلائیں


خار زاروں کا سفر ہے تو پریشانی کیا
آنکھ کو بند کریں اور گل تر کو بلائیں
ہے جو اک عمر سے سمٹا ہوا پس منظر میں
پیش منظر کے لئے پھر اسی منظر کو بلائیں


پھر افق کو ہے وہی چاند سا چہرہ مطلوب
اور ہوائیں بھی اسی زلف معنبر کو بلائیں
راستے بھٹکے ہوئے قدموں کو آوازیں دیں
سیپیاں موج میں گھلتے ہوئے گوہر کو بلائیں


84430 viewsghazalUrdu