اے پری زاد کچھ تو بتا یہ بھی کیا قریۂ قاف کا بھید ہے

By abid-razaFebruary 17, 2025
اے پری زاد کچھ تو بتا یہ بھی کیا قریۂ قاف کا بھید ہے
تیری کومل ہتھیلی پہ سیل فون روشن ہے یا جام جمشید ہے
چشم حیراں میں آشفتگی سے مرادوں بھری رات ڈھلنے لگی
اک ستارہ چمکتا ہے یا آسماں کی ردا میں کوئی چھید ہے


کوہ البرز پر رن پڑا جانے کب سے ہے ویراں بہشت بریں
سیر کے واسطے اب فقط باغ شیراز ہے تخت جمشید ہے
وصل کی بارشوں میں گھنا بید مجنوں کہ سر سبز و شاداب تھا
ہجر میں اب تو لاغر بدن جیسے کوئی لرزتا ہوا بید ہے


نسل در نسل ملتے کہاں خال و خد چشم و رخسار کے سلسلے
پر یہ قدرت کی مشاطگی جینیاتی کرامت کا اک بھید ہے
69301 viewsghazalUrdu