عجب اندھیری رات کا نظارہ تھا

By jamal-ehsaniFebruary 26, 2024
عجب اندھیری رات کا نظارہ تھا
زمین آنکھ تھی فلک ستارہ تھا
وہ کون ہاتھ ہو گا جس نے پہلی بار
چراغ اونچے طاق سے اتارا تھا


جو صرف خشکیوں کے رہنے والے تھے
سمندر ان کا آخری سہارا تھا
میں پانیوں کے پہلے مرحلے تلک
جہاں پہ وہ تھا تیسرا کنارہ تھا


جلی تھیں صرف چار چھ عمارتیں
لپیٹ میں اگرچہ شہر سارا تھا
وہی مکان جس کے بام پر کبھی
اک آئنے کا عکس بے سہارا تھا


وہی دریچہ جس کی چھانو میں کبھی
میں اپنی ساری کائنات ہارا تھا
وہی جگہ ہے جس جگہ تجھے کبھی
ترے پرانے نام سے پکارا تھا


مگر کسے بتائیں کون مانے گا
وہ خواب رات آنکھ میں دوبارہ تھا
پھر اک سفر کے بعد دوسرا سفر
یہ بات ماننے کا کس کو یارا تھا


پھر ایک عمر بیتنے کے باوجود
وہیں کھڑا تھا میں وہی نظارہ تھا
65621 viewsghazalUrdu