بوڑھے قصہ گو کی سانس اکھڑتی تھی

By abid-razaFebruary 17, 2025
بوڑھے قصہ گو کی سانس اکھڑتی تھی
رات کی چھت پہ نیلی شبنم پڑتی تھی
دور کہیں تھے فیل سوار خلا زادے
رستے میں سورج کی بستی پڑتی تھی


باغ میں جادو گرنی اک خورشید لقا
پہروں اپنے حسن پہ خوب اکڑتی تھی
رات کڑکتی برق کی دہشت ناک انی
آنکھ کی پتلی میں جا جا کے گڑتی تھی


اک تاجر زادی سے دل کا سودا تھا
بنتے بنتے اک دم بات بگڑتی تھی
جنت کے حق داروں کو اس دنیا میں
روٹی بھی مشکل سے پوری پڑتی تھی


گوری کے صندوق میں امیدوں کے بیچ
سرخ مشجر کی پوشاک سکڑتی تھی
آنکھ کھلی تو جن تھا اور نہ انگوٹھی
قسمت اپنا خالی ہاتھ رگڑتی تھی


72755 viewsghazalUrdu