درون ذات تری دسترس میں آئے بغیر

By ahmad-ayazFebruary 24, 2025
درون ذات تری دسترس میں آئے بغیر
ہم اپنے آپ سے نکلیں گے سر جھکائے بغیر
عجیب خواہش الفت ہے دل گرفتہ کی
کہ عشق بڑھتا رہے درد کو بڑھائے بغیر


عجیب لمس تھا کاندھے پہ اس کے رکھتے ہی سر
سسک کے رو پڑے ہم حال دل سنائے بغیر
یہ احتجاج گلستاں ہے کیوں یہ خوشبوئیں
شناخت پاتی نہیں گل سے دور جائے بغیر


جب ان سے صرف اشاروں میں بات ہے ممکن
تو شرط رکھ دی ہے کیجے نظر ملائے بغیر
دلوں کو جاننے والے دل فسردہ کی
کبھی تو سن کوئی فریاد ہاتھ اٹھائے بغیر


اسے بھی چین کہاں مجھ سے روٹھ جانے پر
مجھے سکون کہاں اس کو بھی منائے بغیر
86613 viewsghazalUrdu