دھرتی بھی آسماں کے برابر خراب ہے
By jamal-ehsaniFebruary 26, 2024
دھرتی بھی آسماں کے برابر خراب ہے
چادر ہے جیسی ویسا ہی بستر خراب ہے
آگاہ میں چراغ جلاتے ہی ہو گیا
دنیا مرے حساب سے بڑھ کر خراب ہے
بیدار بھی ہو نیند سے چارہ گر جہاں
حالت ترے مریض کی یکسر خراب ہے
اس کے لیے ہی آئے گی آئی اگر بہار
وہ پھول جو کہ باغ سے باہر خراب ہے
نازک اگر نہیں ہے تو شیشہ ہے بے جواز
بھاری اگر نہیں ہے تو پتھر خراب ہے
دنیائے پرکشش بھی ہے ہر سو کھڑی ہوئی
نیت بھی آدمی کی سراسر خراب ہے
آنکھوں سے اب وہ خواب کو نسبت نہیں رہی
اک عمر ہو گئی یہ سمندر خراب ہے
تاریخ سے محال ہے لانا مثال کا
یہ عہد اپنی روح کے اندر خراب ہے
یہ بات بھی چھپی نہ رہے گی بہت کہ میں
اتنا نہیں ہوں جتنا مقدر خراب ہے
کچھ ہاتھ خواب میں تھے گریبان پر مرے
اک شب خیال آیا تھا یہ گھر خراب ہے
بسنے نہیں تو سیر کی خاطر چلو جمالؔ
ایک اور شہر چند قدم پر خراب ہے
چادر ہے جیسی ویسا ہی بستر خراب ہے
آگاہ میں چراغ جلاتے ہی ہو گیا
دنیا مرے حساب سے بڑھ کر خراب ہے
بیدار بھی ہو نیند سے چارہ گر جہاں
حالت ترے مریض کی یکسر خراب ہے
اس کے لیے ہی آئے گی آئی اگر بہار
وہ پھول جو کہ باغ سے باہر خراب ہے
نازک اگر نہیں ہے تو شیشہ ہے بے جواز
بھاری اگر نہیں ہے تو پتھر خراب ہے
دنیائے پرکشش بھی ہے ہر سو کھڑی ہوئی
نیت بھی آدمی کی سراسر خراب ہے
آنکھوں سے اب وہ خواب کو نسبت نہیں رہی
اک عمر ہو گئی یہ سمندر خراب ہے
تاریخ سے محال ہے لانا مثال کا
یہ عہد اپنی روح کے اندر خراب ہے
یہ بات بھی چھپی نہ رہے گی بہت کہ میں
اتنا نہیں ہوں جتنا مقدر خراب ہے
کچھ ہاتھ خواب میں تھے گریبان پر مرے
اک شب خیال آیا تھا یہ گھر خراب ہے
بسنے نہیں تو سیر کی خاطر چلو جمالؔ
ایک اور شہر چند قدم پر خراب ہے
13795 viewsghazal • Urdu