آج اکٹھا کر کے عشق کے ماروں کو

By shariq-kaifiFebruary 29, 2024
آج اکٹھا کر کے عشق کے ماروں کو
گھیر لیا ہے ہم نے دنیا داروں کو
ساتھ کے سارے قیدی ایسا کہتے تھے
ہم نے بھی گھر مان لیا دیواروں کو


اچھے ہو کر لوٹ گئے سب گھر لیکن
موت کا چہرہ یاد رہا بیماروں کو
دھار کو پرکھا زنگ کے دھبے صاف کیے
پھر بیٹھک میں ٹانگ دیا تلواروں کو


جاؤ اپنے حصے کے تم عیش کرو
عشق میں ہم بھی بھول گئے تھے یاروں کو
میرے علاوہ کون جگانے آتا ہے
پچھلے پہر کے سوئے ہوئے بازاروں کو


صبح کا مطلب صبح کا پہلا سگریٹ تھا
وہ بھی اب لا حاصل ہے بیماروں کو
75106 viewsghazalUrdu