گئے گزرے دنوں کی یاد کا نشہ ابھی تک ہے

By amardeep-singhOctober 2, 2021
گئے گزرے دنوں کی یاد کا نشہ ابھی تک ہے
میرے پیمانۂ دل میں کوئی صہبا ابھی تک ہے
چھلک پڑتے ہیں آنسو آنکھ سے اک موڑ مڑتے ہی
پرانے گھر کی گلیوں سے مرا رشتہ ابھی تک ہے


اے کوئے یار تو شاید اسے اب بھول بیٹھی ہو
مگر تیرے سبب سے شخص اک رسوا ابھی تک ہے
تصور ہی کی دنیا تھی خیالوں ہی میں رہتے تھے
یقیں سے کم نہیں تھا جو وہی دھوکہ ابھی تک ہے


انہی آنکھوں سے گزرا ہے وہ ہر منظر جو کہتی ہیں
سراسر وہم تھا وہ سب کے جو دیکھا ابھی تک ہے
یہ گھر اس شخص کی محنت کو اب تک خرچ کرتا ہے
جو سالوں پہلے مر کر بھی کہیں زندہ ابھی تک ہے


مسائل کچھ بھی ہوں لیکن مجھے کب فکر تھی کوئی
تھے وہ بھی دن میں کہتا تھا مرا ابا ابھی تک ہے
محبت کی بھلا اس سے بڑی تصدیق کیا ہوگی
مسلمانوں کی بستی میں جو مندر تھا ابھی تک ہے


برا کہتی ہے گر دنیا ہمیں تو مسئلہ کیا ہے
ہمیں تو فکر ہے اس کی کہ جو اچھا ابھی تک ہے
ہجوم دوستاں ہر سو ہے لیکن باوجود اس کے
امرؔ کیا بات ہے آخر جو تو تنہا ابھی تک ہے


47407 viewsghazalUrdu