تو آج ظرف تُمہارا بھی آزماتے ہیں اگر ہو اِذن تُمہیں آئینہ دِکھاتے ہیںکہو تو جان ہتھیلی پہ لے کے حاضِر ہوںکہو تو سر پہ کوئی آسماں اُٹھاتے ہیںہمارا شہر ہے شمشان گھاٹ کے جیساتو چِیخ چِیخ کے کیا اِن کو ہم جگاتے ہیںکُھلے نہ اُن پہ کہِیں اپنی تُرش گُفتاری ہم اپنے آپ کو شِیرِیں سُخن بتاتے ہیںچلو کہ ہم بھی مناتے ہیں دِن پِدر کا آج پھر اُس کے بعد سِتم ہائے دِل پہ ڈھاتے ہیںکبھی تو پاک تشخُّص پہ ناز کرتے تھے اب اپنی "قوم" بتاتےہُوئے لجاتے ہیںابھی تلک ہے وہی سِلسِلہ محبّت کابصد خُلُوص عقِیدت میں سر جُھکاتے ہیںنہِیں ہے ہم کو ضرُورت ہی دُم ہِلانے کیکہ اپنی آپ کماتے ہیں، اپنی کھاتے ہیںرشِید چلتا رہے گا یہ سِلسِلہ ایسےبسے تھے کل جو یہاں آج لوٹ جاتے ہیں رشِید حسرتؔ