ہمیں نہ آج کسی غم پہ جب ہنسی آئی
By manmohan-talkhSeptember 24, 2023
ہمیں نہ آج کسی غم پہ جب ہنسی آئی
تو عمر رفتہ نے آواز دی ابھی آئی
ہوئے ہیں محو ہم ایسے کہ دیر تک ہم کو
کسی نے دیکھا تو نظروں میں بے رخی آئی
گئی تھی ساتھ وہاں تک تو دل کی بیتابی
ہمارے ساتھ کہاں سے یہ بے دلی آئی
وہ انقلاب دل دوست آج بھی نہ ہوا
کہ جس کو دیکھنے اک عمر لوٹ سی آئی
اسی کی اچٹی سی باتیں جو آج اس سے کہیں
تو دیر تک نہ سخن میں شگفتگی آئی
وہی صدا مجھے اب اجنبی سی لگتی ہے
حیات رفتہ پلٹ اب کٹھن گھڑی آئی
نگاہ دوست بہت اپنا حال جان لیا
جو تجھ میں درد بھری بے توجہی آئی
خیال پرسش غم تو اسے بھی ہے اے دل
ترے نصیب جو اب تک نہ وہ گھڑی آئی
دل اور درد میں برسوں کی ٹھن گئی ہے یہاں
کسی کے ہونے نہ ہونے سے کیا کمی آئی
یہ دل سے اٹھ کے جو درد آ بسا ہے آنکھوں میں
نہ جانے یاد ہمیں کون سی گھڑی آئی
لگی ہوئی تھیں یہ آنکھیں بہت جو تم پہ تو آج
انہیں میں ہم کو نظر اپنی بے کسی آئی
بالآخر اپنے مزاجوں کے ہو رہے قائل
اگرچہ تیری اداؤں کی یاد بھی آئی
قدم قدم پہ وہ تیری امید سی کی نگاہ
پلٹ کے راستے بھر تجھ کو دیکھتی آئی
اسی کے رنگ میں ہم آج اس سے مل بیٹھے
اسی کے سامنے آج اس کی سادگی آئی
یہاں تو اشک بھر آئے بہ یاد پرسش غم
وہاں نہ جانے ان آنکھوں میں کیوں نمی آئی
ہماری بزم تصور میں وہ نگہ نہ تھی شوخ
یہاں تو جب بھی وہ آئی جھکی جھکی آئی
کسی کو دیکھ کے تنہائی جاگ اٹھتی ہے
کہ یہ ہے جس کے بغیر اس قدر کمی آئی
ہم اپنے درد کو انمول جانتے تھے تلخؔ
ہمیں حیات مروت میں بیچ بھی آئی
تو عمر رفتہ نے آواز دی ابھی آئی
ہوئے ہیں محو ہم ایسے کہ دیر تک ہم کو
کسی نے دیکھا تو نظروں میں بے رخی آئی
گئی تھی ساتھ وہاں تک تو دل کی بیتابی
ہمارے ساتھ کہاں سے یہ بے دلی آئی
وہ انقلاب دل دوست آج بھی نہ ہوا
کہ جس کو دیکھنے اک عمر لوٹ سی آئی
اسی کی اچٹی سی باتیں جو آج اس سے کہیں
تو دیر تک نہ سخن میں شگفتگی آئی
وہی صدا مجھے اب اجنبی سی لگتی ہے
حیات رفتہ پلٹ اب کٹھن گھڑی آئی
نگاہ دوست بہت اپنا حال جان لیا
جو تجھ میں درد بھری بے توجہی آئی
خیال پرسش غم تو اسے بھی ہے اے دل
ترے نصیب جو اب تک نہ وہ گھڑی آئی
دل اور درد میں برسوں کی ٹھن گئی ہے یہاں
کسی کے ہونے نہ ہونے سے کیا کمی آئی
یہ دل سے اٹھ کے جو درد آ بسا ہے آنکھوں میں
نہ جانے یاد ہمیں کون سی گھڑی آئی
لگی ہوئی تھیں یہ آنکھیں بہت جو تم پہ تو آج
انہیں میں ہم کو نظر اپنی بے کسی آئی
بالآخر اپنے مزاجوں کے ہو رہے قائل
اگرچہ تیری اداؤں کی یاد بھی آئی
قدم قدم پہ وہ تیری امید سی کی نگاہ
پلٹ کے راستے بھر تجھ کو دیکھتی آئی
اسی کے رنگ میں ہم آج اس سے مل بیٹھے
اسی کے سامنے آج اس کی سادگی آئی
یہاں تو اشک بھر آئے بہ یاد پرسش غم
وہاں نہ جانے ان آنکھوں میں کیوں نمی آئی
ہماری بزم تصور میں وہ نگہ نہ تھی شوخ
یہاں تو جب بھی وہ آئی جھکی جھکی آئی
کسی کو دیکھ کے تنہائی جاگ اٹھتی ہے
کہ یہ ہے جس کے بغیر اس قدر کمی آئی
ہم اپنے درد کو انمول جانتے تھے تلخؔ
ہمیں حیات مروت میں بیچ بھی آئی
87672 viewsghazal • Urdu