حسرت شوق شہادت ہے نکل جانے دو

By piyare-lal-raunaq-dehlwiFebruary 28, 2024
حسرت شوق شہادت ہے نکل جانے دو
آج خنجر کو گلے پر مرے چل جانے دو
مست ہو دیدۂ مے گوں سے زمانہ سارا
تم جو پیمانے سے آنکھ اپنی بدل جانے دو


دل بھی دے دیں گے طلب گار ہیں گر دل کے حسین
پہلے چٹکی سے کلیجہ انہیں مل جانے دو
روکتا کون ہے جاتی ہے تو جائے شب ہجر
کالا منہ کرنے دو کم بخت کو ٹل جانے دو


یاد مژگاں ہی سے حاصل ہے مجھے لطف خلش
تیر چلتے ہیں کلیجے پہ تو چل جانے دو
ایسا بھی کیا ہے ابھی آئے ہو جانا ٹھیرو
اور دو چار گھڑی دل کو بہل جانے دو


طائر روح پہ آفت قفس جسم میں ہے
چار دیوار عناصر سے نکل جانے دو
آفت آئے گی محبت کے گنہ گاروں پر
کھول کر دیتے ہو کیوں زلف میں بل جانے دو


میں یہ کہتا ہوں کہ اغیار کا جامہ نہ پہن
دل کو ضد ہے کہ مجھے بھیس بدل جانے دو
پاؤں رکھتا ہے رہ شوق میں اے حضرت دل
سر کے بل جاتا ہوں میں آنکھوں کے بل جانے دو


چھوڑ دو کوچۂ جاناں کا تصور رونقؔ
دل جو کم بخت مچلتا ہے مچل جانے دو
76218 viewsghazalUrdu