ہجر میں ایسے ترے شام و سحر جاتے ہیں

By abid-barelviDecember 2, 2024
ہجر میں ایسے ترے شام و سحر جاتے ہیں
قافلے یادوں کے آتے ہیں گزر جاتے ہیں
کیا سزا پائی ہے پھولوں نے مہکنے کی یہ
ہر سحر کھلتے ہیں ہر شام بکھر جاتے ہیں


در بہ در خواب سے منظر ہیں مری آنکھوں میں
غم بھی پلکوں پہ مری آ کے ٹھہر جاتے ہیں
زندگی ہم نے ترا کچھ تو بھرم رکھا ہے
اتنے کرداروں میں جیتے ہیں کہ مر جاتے ہیں


کو بہ کو یاس کا عالم ہے فقط ہم تنہا
حوصلے ٹوٹ کے راہوں میں بکھر جاتے ہیں
جستجو کس کی ہے جانیں یہ سفر ہے کیسا
ہم کو جانا ہے کہاں ہم یہ کدھر جاتے ہیں


کشمکش میں ہے خوشی سب کی بھلا کیوں آخر
ہم جدھر جاتے ہیں یہ غم بھی ادھر جاتے ہیں
آؤ اب یارو زمیں پر بھی اتر آئیں ہم
یہ پرندے بھی بلندی سے اتر جاتے ہیں


اک نظر تیری زمانے پہ ہوا کرتی ہے
اگڑے بگڑے جو مقدر ہیں سنور جاتے ہیں
سر پھری آگ ہے اس دل میں لگی اے عابدؔ
آ چلیں اب کسی دریا میں اتر جاتے ہیں


92072 viewsghazalUrdu