جس سے بنتی نہ تھی کبھی اپنی
By tasnim-abbas-quraishiMarch 1, 2024
جس سے بنتی نہ تھی کبھی اپنی
مل گئی اس سے کنڈلی اپنی
انگنت بھید کھول دیتی ہے
ایک لمحے کی خامشی اپنی
ہائے افسوس خود سے ملتے وقت
آڑے آتی رہی کمی اپنی
آہ بے چارگاں کے جیسی ہے
پوچھتے کیا ہو زندگی اپنی
کن کے اسرار کھل رہے ہیں مدام
اور حالت ہے دیدنی اپنی
پا بہ زنجیر شوق ہوتا گیا
دیکھ لے حسن منصفی اپنی
عمر بھر ساتھ ساتھ تھے ہم لوگ
عمر بھر بن نہیں سکی اپنی
کیوں ہے شمس و قمر کا تو محتاج
پیدا کر خود سے روشنی اپنی
ہائے دوزخ یہ پیٹ کا دوزخ
بیچ دی ہم نے شاعری اپنی
بارشی سا مزاج ہے اس کا
اور ناؤ ہے کاغذی اپنی
میں ستاروں سے آگے کیا جاتا
مجھ میں حائل تھی روشنی اپنی
ربط ملت کا خواب تھا اپنا
پر نہ تعبیر ہو سکی اپنی
ہم بھی کرتے قیاس ملت پر
سوچ ہوتی جو ہاشمی اپنی
ایسے الجھے ہیں روز و شب میں ہم
برف ہے سوچ پر جمی اپنی
مل گئی اس سے کنڈلی اپنی
انگنت بھید کھول دیتی ہے
ایک لمحے کی خامشی اپنی
ہائے افسوس خود سے ملتے وقت
آڑے آتی رہی کمی اپنی
آہ بے چارگاں کے جیسی ہے
پوچھتے کیا ہو زندگی اپنی
کن کے اسرار کھل رہے ہیں مدام
اور حالت ہے دیدنی اپنی
پا بہ زنجیر شوق ہوتا گیا
دیکھ لے حسن منصفی اپنی
عمر بھر ساتھ ساتھ تھے ہم لوگ
عمر بھر بن نہیں سکی اپنی
کیوں ہے شمس و قمر کا تو محتاج
پیدا کر خود سے روشنی اپنی
ہائے دوزخ یہ پیٹ کا دوزخ
بیچ دی ہم نے شاعری اپنی
بارشی سا مزاج ہے اس کا
اور ناؤ ہے کاغذی اپنی
میں ستاروں سے آگے کیا جاتا
مجھ میں حائل تھی روشنی اپنی
ربط ملت کا خواب تھا اپنا
پر نہ تعبیر ہو سکی اپنی
ہم بھی کرتے قیاس ملت پر
سوچ ہوتی جو ہاشمی اپنی
ایسے الجھے ہیں روز و شب میں ہم
برف ہے سوچ پر جمی اپنی
40141 viewsghazal • Urdu