جو بھی کردار سے لکھی جائے
By adeeb-damohiOctober 31, 2024
جو بھی کردار سے لکھی جائے
زندگی کیوں نہ وہ پڑھی جائے
دفتر غم میں آ کے بیٹھا ہوں
آج کوئی غزل کہی جائے
ذہن کا بوجھ کچھ تو ہلکا ہو
گرد یادوں کی صاف کی جائے
زندگی کے حساب میں گم ہوں
حل پہیلی یہ کیسے کی جائے
چند لمحے ہی کھینچ لو اس سے
زندگی شام سی ڈھلی جائے
لب کے کھلتے ہی کان کھل جائیں
ایسے لہجے میں بات کی جائے
بے تحاشہ ہے بھیڑ خود مجھ میں
اب جگہ اور کس کو دی جائے
دل کا شیشہ جو توڑ کر رکھ دے
بات وہ کیوں کہی سنی جائے
جس کو دیکھو اس انتظار میں ہے
شور اٹھے تو خامشی جائے
صرف اردو زبان ہے جو ادیبؔ
رس محبت کا گھولتی جائے
زندگی کیوں نہ وہ پڑھی جائے
دفتر غم میں آ کے بیٹھا ہوں
آج کوئی غزل کہی جائے
ذہن کا بوجھ کچھ تو ہلکا ہو
گرد یادوں کی صاف کی جائے
زندگی کے حساب میں گم ہوں
حل پہیلی یہ کیسے کی جائے
چند لمحے ہی کھینچ لو اس سے
زندگی شام سی ڈھلی جائے
لب کے کھلتے ہی کان کھل جائیں
ایسے لہجے میں بات کی جائے
بے تحاشہ ہے بھیڑ خود مجھ میں
اب جگہ اور کس کو دی جائے
دل کا شیشہ جو توڑ کر رکھ دے
بات وہ کیوں کہی سنی جائے
جس کو دیکھو اس انتظار میں ہے
شور اٹھے تو خامشی جائے
صرف اردو زبان ہے جو ادیبؔ
رس محبت کا گھولتی جائے
10800 viewsghazal • Urdu