جو ہو نصیب تو گرداب سے نکل جاؤں

By aftab-ranjhaMay 22, 2024
جو ہو نصیب تو گرداب سے نکل جاؤں
میں اپنے حلقۂ احباب سے نکل جاؤں
نجانے گردش ایام کیوں نہیں رکتی
میں گہری نیند کے اس خواب سے نکل جاؤں


میں چھپ کے بیٹھا ہوں تنہائی کے سمندر میں
صدا جو آئے تہہ آب سے نکل جاؤں
مری طبیعت مضطر یہاں نہ ٹھہرے گی
اے کاش گوشۂ سیماب سے نکل جاؤں


اگر وہ چاہے تو اک پل رکوں نہیں برہمؔ
میں اس کے شہر کے ہر باب سے نکل جاؤں
45584 viewsghazalUrdu