خلا میں اڑ رہی ہے گرد گھر سے

By mast-hafiz-rahmaniFebruary 27, 2024
خلا میں اڑ رہی ہے گرد گھر سے
ابھی لوٹا ہوں میں واپس سفر سے
کریں کیا بات ہم اس چارہ گر سے
جو واقف ہی نہیں ہے درد سر سے


نظر آئیں گے ہم بھی میرؔ صاحب
کوئی دیکھے تو غالبؔ کی نظر سے
مرا ایوان ہے گوشہ نشینی
ہوئی مدت نہیں نکلا ہوں گھر سے


اسے بھی پی گئیں سورج کی کرنیں
ذرا سا سایہ مانگا تھا سحر سے
فلک پیروں کو بوسہ دے رہا ہے
کچھ اس انداز سے نکلا ہوں گھر سے


ہر اک ذرہ ہے خوشبو میں نہایا
کوئی گزرا ہے شاید پھر ادھر سے
عجب یہ فلسفہ ہے زندگی کا
چراغ دل ہوا روشن نظر سے


کہاں سے یہ کہاں مستؔ آ گیا ہوں
نمود شام ظاہر ہے سحر سے
75427 viewsghazalUrdu