نہ ثبات ہے نہ دوام ہے

By aamir-azherOctober 4, 2024
نہ ثبات ہے نہ دوام ہے
خم زندگی ہے سو خام ہے
ہمیں موسموں سے امید کیا
ہمیں روز روز کا کام ہے


تجھے راستوں کا پتہ نہ تھا
ترے حوصلوں کو سلام ہے
نہ یہ سرد ہو نہ یہ ختم ہو
مری تشنگی مرا جام ہے


میں یہ پوچھتا ہوا چل دیا
کوئی کام ہے کوئی کام ہے
مجھے عامرؔ آپ سے کیا غرض
یہ کلام سب کا کلام ہے


47450 viewsghazalUrdu