روشنی مجھ سے گریزاں ہے تو شکوہ بھی نہیں
By iqbal-azeemFebruary 26, 2024
روشنی مجھ سے گریزاں ہے تو شکوہ بھی نہیں
میرے غم خانے میں کچھ ایسا اندھیرا بھی نہیں
پرسش حال کی فرصت تمہیں ممکن ہے نہ ہو
پرسش حال طبیعت کو گوارا بھی نہیں
یوں سر راہ ملاقات ہوئی ہے اکثر
تم نے دیکھا بھی نہیں ہم نے پکارا بھی نہیں
عرض احوال کی عادت بھی نہیں ہے ہم کو
اور حالات کا شاید یہ تقاضا بھی نہیں
بے نیازانہ گزر جائے گزرنے والا
میرے پندار کو اب شوق تماشا بھی نہیں
ہاتھ پھیلاؤں میں عیسیٰ نفسوں کے آگے
درد پہلو میں مرے ہے مگر اتنا بھی نہیں
اک شکن ماتھے پہ دیکھی تھی تمھارے ہم نے
پھر کبھی آنکھ اٹھا کر تمہیں دیکھا بھی نہیں
آخری بار ہنسی آئی تھی کب یاد نہیں
اور پھر آئے ہنسی اس کی تمنا بھی نہیں
میرے حالات نہ بدلے تو نہ بدلیں اقبالؔ
مجھ کو حالات پہ کچھ ایسا بھروسہ بھی نہیں
میرے غم خانے میں کچھ ایسا اندھیرا بھی نہیں
پرسش حال کی فرصت تمہیں ممکن ہے نہ ہو
پرسش حال طبیعت کو گوارا بھی نہیں
یوں سر راہ ملاقات ہوئی ہے اکثر
تم نے دیکھا بھی نہیں ہم نے پکارا بھی نہیں
عرض احوال کی عادت بھی نہیں ہے ہم کو
اور حالات کا شاید یہ تقاضا بھی نہیں
بے نیازانہ گزر جائے گزرنے والا
میرے پندار کو اب شوق تماشا بھی نہیں
ہاتھ پھیلاؤں میں عیسیٰ نفسوں کے آگے
درد پہلو میں مرے ہے مگر اتنا بھی نہیں
اک شکن ماتھے پہ دیکھی تھی تمھارے ہم نے
پھر کبھی آنکھ اٹھا کر تمہیں دیکھا بھی نہیں
آخری بار ہنسی آئی تھی کب یاد نہیں
اور پھر آئے ہنسی اس کی تمنا بھی نہیں
میرے حالات نہ بدلے تو نہ بدلیں اقبالؔ
مجھ کو حالات پہ کچھ ایسا بھروسہ بھی نہیں
56793 viewsghazal • Urdu