رویہ دیکھ کر ان کا تو ہم ناشاد ہو بیٹھے

By abu-hurrairah-abbasiSeptember 2, 2024
رویہ دیکھ کر ان کا تو ہم ناشاد ہو بیٹھے
بھلا لہجے سے وہ کیوں نشتر فصاد ہو بیٹھے
زمانے بھر میں اپنے نام کا ڈنکا بھی بجتا تھا
پر اجڑے یوں کہ ہم تو صورت بغداد ہو بیٹھے


کہا فرہاد نے اپنی مریدی میں مجھے لے لیں
سنا کر قصۂ غم مرشد فرہاد ہو بیٹھے
عمارت اپنے خوابوں کی بنانے کا کیا آغاز
تو خود ہم اینٹ بن بیٹھے خودی بنیاد ہو بیٹھے


گئے وقتوں میں ایسا تھا یہاں کچھ کم شکاری تھے
نئے وقتوں میں دیکھو تو سبھی صیاد ہو بیٹھے
یہاں پر کون زندہ اب رکھے اپنی روایت کو
یہاں پر لوگ جو مادر پدر آزاد ہو بیٹھے


جنہیں تھا عشق سے مطلب وہ سولی چڑھ گئے آخر
جنہیں دولت سے مطلب تھا وہ سب شداد ہو بیٹھے
اثر بے موسمی طوفان کا گلشن پہ گہرا ہے
کبھی جو پھول ہوتے تھے وہ اب فولاد ہو بیٹھے


کبھی غلطی سے جو مصرع ملا لیتے ہیں اکثر وہ
سمجھتے ہیں کہ اب ہم میرؔ کے استاد ہو بیٹھے
کسیں اقبالؔ پر بولی کریں باتیں غزالیؔ پر
بلا تحقیق ہی یہ سب یہاں نقاد ہو بیٹھے


47227 viewsghazalUrdu