رکا سا تھا کوئی منظر مگر ٹھہرا نہیں تھا

By yasir-iqbalMarch 1, 2024
رکا سا تھا کوئی منظر مگر ٹھہرا نہیں تھا
لرزتی یاد کا آنسو تھا اور بہتا نہیں تھا
سمجھتے تھے وہ کم آمیزیٔ دروازۂ دل
بہت دستک تھی لیکن زخم آوازہ نہیں تھا


بصارت میں کسی نادیدہ وحشت کی رڑک تھی
بھٹکتی آنکھ میں کس دشت کا ٹکڑا نہیں تھا
صبا ہم راہ سطح آب میں بہتا کہاں تک
تمنا گھل رہی تھی اور بدن سچا نہیں تھا


کھلا پھر رات کے کہرے پہ آخر رات کھو کر
ہوا کے ہاتھ میں جو عکس تھا اس کا نہیں تھا
سلگتی رات کی رانی لپٹ کی آس میں تھی
بجھی رت کی ہتھیلی پر دیا کھلتا نہیں تھا


ہمی بیتاب تھے ذرے کا تارا تاپتے تھے
خدا کے آئنے میں کون سا صحرا نہیں تھا
30745 viewsghazalUrdu