سفر کی شام تھکن بے پناہ تھی میری

By abid-razaFebruary 17, 2025
سفر کی شام تھکن بے پناہ تھی میری
کنار آب رواں خیمہ گاہ تھی میری
افق سے روزن تاریک کھینچتا تھا مجھے
میں بے چراغ تھا اور شب سیاہ تھی میری


نشیب جاں میں اترتا ہوں جس کی چوٹی سے
اسی پہاڑ پہ اک خانقاہ تھی میری
مرا یہ زعم کہ مجھ پر روا ہے خوں اس کا
کنیز شوخ مگر بے گناہ تھی میری


شکستگی میں گراتا رہا میں خشت بہ خشت
مرا بدن تھا کہ اک سد راہ تھی میری
قدیم آگ سے آتش کدہ کیا روشن
ہوائے تند بڑی خیر خواہ تھی میری


میں ایک عمر اٹھاتا رہا سکوت کا بوجھ
دبی ہوئی مرے اندر کراہ تھی میری
92545 viewsghazalUrdu