شاخ گل چھین لیں گل تر سے
By siraj-azmiFebruary 29, 2024
شاخ گل چھین لیں گل تر سے
آدمی ہو گئے ہیں پتھر سے
وہ کہاں اور ہم کہاں لیکن
آنکھیں اب تک ہٹی نہیں در سے
لوگ اس پار جا چکے اور ہم
شکوہ کرتے رہے مقدر سے
جس میں لہجے کی کاٹ ہو شامل
لفظ وہ کم نہیں ہیں خنجر سے
ہوش پھر بھی ہمیں نہیں آیا
لاکھ طوفاں گزر گئے سر سے
یہ مگر کم سواد کیا جانیں
اشک بھی کم نہیں سمندر سے
یہ مرا شہر بھی عجب ہے سراجؔ
بجھتے جاتے ہیں لوگ اندر سے
آدمی ہو گئے ہیں پتھر سے
وہ کہاں اور ہم کہاں لیکن
آنکھیں اب تک ہٹی نہیں در سے
لوگ اس پار جا چکے اور ہم
شکوہ کرتے رہے مقدر سے
جس میں لہجے کی کاٹ ہو شامل
لفظ وہ کم نہیں ہیں خنجر سے
ہوش پھر بھی ہمیں نہیں آیا
لاکھ طوفاں گزر گئے سر سے
یہ مگر کم سواد کیا جانیں
اشک بھی کم نہیں سمندر سے
یہ مرا شہر بھی عجب ہے سراجؔ
بجھتے جاتے ہیں لوگ اندر سے
21099 viewsghazal • Urdu