شعار درد کو غم کو اصول کر بھی لیا
By sajid-raheemFebruary 28, 2024
شعار درد کو غم کو اصول کر بھی لیا
کہا بھی عشق کو کار فضول کر بھی لیا
تجھے ابھی ہے تامل جسے سنانے میں
ترا وہ فیصلہ ہم نے قبول کر بھی لیا
تمام شہر مرے ہونٹ چومنے آیا
کبھی جو نام ترا میں نے بھول کر بھی لیا
زمانہ اس کو مرا معجزہ شمار کرے
اٹھے نہ پاؤں بھی رستے کو دھول کر بھی لیا
گلی گلی میں مہک میرے شعر کی پہنچی
عطا جو زخم ہوئے ان کو پھول کر بھی لیا
وہ آنکھ بھیجتی تھی سینکڑوں پیام مجھے
اک آدھ بار تو میں نے وصول کر بھی لیا
ابھی تو ٹھیک سے آئی نہیں تھی سانس مجھے
کہ اگلے شعر نے دل پر نزول کر بھی لیا
چرا کے لے گئی خوشبو کلی کے کھلتے ہی
ہوا نے پھول سے بھتہ وصول کر بھی لیا
کہا بھی عشق کو کار فضول کر بھی لیا
تجھے ابھی ہے تامل جسے سنانے میں
ترا وہ فیصلہ ہم نے قبول کر بھی لیا
تمام شہر مرے ہونٹ چومنے آیا
کبھی جو نام ترا میں نے بھول کر بھی لیا
زمانہ اس کو مرا معجزہ شمار کرے
اٹھے نہ پاؤں بھی رستے کو دھول کر بھی لیا
گلی گلی میں مہک میرے شعر کی پہنچی
عطا جو زخم ہوئے ان کو پھول کر بھی لیا
وہ آنکھ بھیجتی تھی سینکڑوں پیام مجھے
اک آدھ بار تو میں نے وصول کر بھی لیا
ابھی تو ٹھیک سے آئی نہیں تھی سانس مجھے
کہ اگلے شعر نے دل پر نزول کر بھی لیا
چرا کے لے گئی خوشبو کلی کے کھلتے ہی
ہوا نے پھول سے بھتہ وصول کر بھی لیا
56642 viewsghazal • Urdu