وہی صحرا سا بہت اور ذرا سا دریا

By ahmad-kamal-hashmiMay 24, 2024
وہی صحرا سا بہت اور ذرا سا دریا
مجھ کو لگتا ہے ترا نام سنا سا دریا
سب پہنچتے ہیں فقط پیاس بجھانے اپنی
کوئی دیکھے بھی تو کیسے کہ ہے پیاسا دریا


تیری آنکھیں ہیں سمندر یہ بتایا جب سے
تب سے آتا ہے نظر مجھ سے خفا سا دریا
تشنہ کاموں کی بڑی بھیڑ لگی ہے دیکھو
جو بھی آئے اسے دیتا ہے دلاسا دریا


خشک لب اپنے بھلا اس کو دکھاتا کیسے
نظر آیا تھا لئے ہاتھ میں کاسہ دریا
تیرتے تیرتے میں آج بھی تازہ دم ہوں
بہتے بہتے نظر آتا ہے تھکا سا دریا


میرے لب پر ہے وہی پیاس پرانی اب تک
میرے آگے ہے رواں ایک نیا سا دریا
بولو کیا لو گے ادھر چھوٹا سمندر ہے کمالؔ
ہے ادھر رکھا ہوا ایک بڑا سا دریا


59236 viewsghazalUrdu