یہ ایک کام بچا تھا سو وہ بھی کرنے لگے

By ahmar-nadeemNovember 10, 2024
یہ ایک کام بچا تھا سو وہ بھی کرنے لگے
نفس نفس میں اداسی کے جام بھرنے لگے
ابھی تو ان کو مرتب ہی کر رہے تھے ہم
خیال صفحۂ قرطاس پر بکھرنے لگے


ستم ظریفیٔ دوراں بھی راس آنے لگی
یہ کس کی زلف کے سائے میں ہم سنورنے لگے
اداس نسلوں کو درکار ہے اک اور سفر
رخ سحر پہ شبوں کے نقوش ابھرنے لگے


مسافران تغیر ہیں کیسے سادہ مزاج
حیات نو کی بشارت پہ کان دھرنے لگے
بس اتنا قصہ ہے آنکھوں میں خواب آنے کا
اٹھے سنبھل کے چلے اور پھر ٹھہرنے لگے


41885 viewsghazalUrdu