ذرا بھی بدلی نہیں جو بھی اس کی عادت تھی

By shariq-kaifiFebruary 29, 2024
ذرا بھی بدلی نہیں جو بھی اس کی عادت تھی
ملا تو آج بھی لہجے میں اجنبیت تھی
وہ دن بھی تھے کہ ان آنکھوں میں اتنی حیرت تھی
تمام بازی گروں کو مری ضرورت تھی


وہ بات سوچ کے میں جس کو مدتوں جیتا
بچھڑتے وقت بتانے کی کیا ضرورت تھی
پتہ نہیں یہ تمنائے قرب کب جاگی
مجھے تو صرف اسے سوچنے کی عادت تھی


خموشیوں نے پریشاں کیا تو ہو گا مگر
پکارنے کی یہی صرف ایک صورت تھی
گئے بھی جان سے اور کوئی مطمئن نہ ہوا
کہ پھر دفاع نہ کرنے کی ہم پہ تہمت تھی


کہیں پہ چوک رہے ہیں یہ آئنے شاید
نہیں تو عکس میں اب تک مری شباہت تھی
ہزار بار اشاروں میں اس کو سمجھایا
مگر اسے تو مرے جھوٹ سے محبت تھی


منا لیا ہے اسے پھر اسی کی شرطوں پر
تمام عمر کسے روٹھنے کی فرصت تھی
ہر اک قدم پہ بہت سوچنا پڑا مجھ کو
کہ امتحاں بھی وہیں تھے جہاں اجازت تھی


یہ اس کی شکل سے کیوں میرے خد و خال ابھرے
اسے بھی فکر بہت تھی مجھے بھی حیرت تھی
19626 viewsghazalUrdu