تمام خلق کا خدمت گزار ہے پانی

1
تمام خلق کا خدمت گزار ہے پانی

رگوں میں خون بدن میں نکھار ہے پانی
گلوں میں حسن چمن میں بہار ہے پانی

نمو کی بزم میں پروردگار ہے پانی
نگاہ خلق سے غائب جو ہے فضاؤں میں

امام غیب کا بھرتا ہے دم ہواؤں میں
2

بفطرت ازلی بے غبار ہے پانی
جمال قدس کا آئینہ دار ہے پانی

فضا میں خالق ابر بہار ہے پانی
زمیں پہ رحمت پروردگار ہے پانی

یہ آب و رنگ یہ سب رنگ وبو ہے پانی سے
عروس خاک! تری آبرو ہے پانی سے

3
کہیں یہ اشک کا گوہر کہیں درشبنم

کہیں خوشی کا ہے آنسو کہیں ہے گریہ غم
خوشا لطافت آب و خوشا طہارت یم

بہشت میں ہے یہ تسنیم خاک پرزمزم
یہ پاک ساقی کوثر کے انتساب سے ہے

کہ جیسے خاک کی تطہیر بوتراب سے ہے
4

نہ کیوں ہو چار عناصر میں آب کو تفضیل
بقول حق ہے اسی سے حیات کی تشکیل

جو مس ہو تن سے نجاست کثیر ہو کہ قلیل
تو پاک کرنے کو یہ سلسبیل کی ہے سبیل

عجیب جوہر تطہیر اس کی ذات میں ہے
کہ سب سے پہلے یہ شرعاً مطہرات میں ہے

5
یہ چار حرف کی ترکیب کس قدر ہے عظیم

کبھی زمین کبھی آسمان اس کا ندیم
کبھی ہے کوہ کی آغوش میں بصد تکریم

کبھی فضا میں معلق بدوش موج نسیم
سبیل عام کبھی راہ باٹ کا پانی

پیا ہے اس نے غرض گھاٹ گھاٹ کا پانی
6

عجیب چیز زبان لعنت میں پانی ہے
کہ جس کے ذکر میں آمد ہے اور روانی ہے

قلم بھی وقت رقم محو در فشانی ہے
یہ ایک لفظ اور اک قلزم معانی ہے

چڑھے جو بام فلک پر سحاب ہوجائے
جو کھینچ لیں تو عرق ہو شراب ہوجائے

7
اگر یہ پھل کی صفت ہو تو سمجھو پھیکا ہے

جو ذکر شیر میں آئے رقیق ہوتا ہے
جو وصف آہن و فولاد ہو تو ٹھنڈا ہے

ہوں اصل و نسل کے معنی تو استعارا ہے
یہ روز مرہ ہے مشہور مرزبانی کا

کہ جانور ہے بہت اچھے کھیت پانی کا
8

کسی کسان سے معنی جو پوچھے اس نے کہا
کہ میرا کھیت ہے محتاج ایک پانی کا

کبھی کسی کو اگر آگیا کہیں غصہ
طمانچہ کھاکے وہ پانی ہوا تو نرم پڑا

جو یاد ہو کبھی پانی کی اہل جوہر میں
چمک ہے تیغ میں یہ اور دمک ہے گوہر میں

9
ہوئی جو کام میں مشکل کے بعد آسانی

وہاں بھی اس کے سہارے چلی زباں دانی
کہیں یہ جیسے کہ پیاسوں نے دل میں جب ٹھانی

تو جو بھی آئیں کڑی منزلیں ہوئیں پانی
کبھی ہے حوصلہ وعزم کے معانی میں

کہ جیسے مد مقابل ہے کتنے پانی میں
10

تری کا ہے مترادف جو آبلے سے بہا
اسی کو کہتے ہیں آنسو جب آنکھ میں امڈا

یہ موتیا ہے اگر مردمک تک آپہنچا
کبھی اسی کے ہیں معنی خجل بفرط حیا

شمیم خاک شفا جیسے وہ سہانی ہے
کہ جس کے سامنے کوثر کی نہر پانی ہے

11
بہت وسیع ہے پانی کا دامن سیال

یہ سب کثیر معانی ہیں اس کے فیض پہ دال
محاورات میں ان کے سوا ہے استعمال

جو بوند بوند نہیں لاکھ ہیں پکھال پکھال
کہیں جو ماہی فکر ان کی تہ میں کھوجائے

تو بحر شعر و سخن آب آب ہوجائے
12

بیان آب کا ابلا جو قلزم زخار
برس پڑا ہے تخیل کا ابر دریا بار

زمین شعر کا یوں دھوگیا ہے گردوغبار
ورق ورق میں ہے طوبی کی پتیوں کا نکھار

جو اس بہانے سے کوثر کی راہ کھل جائے
یقین ہے مری فرد حساب دھل جائے

13
شکوہ دجلہ و فر فرات ہے پانی

گلوں کی جان ہے شبنم کی ذات ہے پانی
مری زبان میں شہد و نبات ہے پانی

مذاق خضرؑ میں آب حیات ہے پانی
یہ روح قافلہ ہے تشنگی کے خطروں میں

حیات بستی ہے اس کے لطیف قطروں میں
14

عجیب سادہ مزاجی عجیب فطرت ہے
نہ ذائقہ ہے کچھ اس میں نہ بونہ رنگت ہے

مگر کسی پہ اگر تشنگی کی شدت ہے
پھر اس سے پوچھئے پانی میں کیا حلاوت ہے

نہ ترش و تلخ نہ شیریں ہے یہ نہ سیٹھا ہے
مگر مزہ تو یہ ہے جان سے بھی میٹھا ہے

15
سبک مفرح دل جاں فروز روح نواز

لطیف و خوش مزہ و خوش گوار و نرم و گداز
کبھی یہ خاک نشیں اور کبھی فلک پرواز

قدم قدم پہ ہے دیکھے ہوئے نشیب و فراز
زمیں سے اٹھ کے جو گردوں کی راہ لیتا ہے

یہ ارتقا کا زمانے کو درس دیتا ہے
16

یہ کائنات حقیقت میں ہے دخان و شرر
اسی دخان و شرر سے بنے ہیں شمس و قمر

زمیں بھی پارۂ آتش تھی ابتدا میں مگر
یہ آگ راکھ بنی مدتوں میں بجھ بجھ کر

تلا بہ امر مشیت جو لاگ پر پانی
سحاب فضل نے چھڑکا اس آگ پر پانی

17
ہزاروں سال فضا میں رہا محیط سحاب

جھما جھمی سے ہوئیں بارشیں، زمیں سیراب
بجائے شعلۂ بیتاب اب تھے وہ گرداب

نگل کے آگ، اگلتے تھے جو درنایاب
بفیض آب نوید گل و گلاب آئی

زمین خاک تھی، پانی سے آب و تاب آئی
18

نمود حسن جگر دوز و دل نشیں، پانی
وجود نیشکر و شہد و انگبیں، پانی

جہاں میں نسخہ ایجاد ماء وطیں، پانی
ہے آفرینش انساں، صد آفریں، پانی

نمو میں ہے حرکت آب کی روانی سے
اگا ہے خلق میں نخل حیات پانی سے

19
ہے جزو جامۂ خلقت جو آستیں کی طرح

لیے ہے گود میں خلقت کو یہ زمیں کی طرح
زمیں جو گول ہے انگشتر حسیں کی طرح

چمک رہا ہے انگوٹھی میں یہ نگیں کی طرح
جہان خاک میں پانی کا یہ قرینہ ہے

کہ خاک دان حقیقت میں آبگینہ ہے
20

کبھی مسیح کے نسخے میں موج رحمت حق
کبھی مریض کی آنکھوں میں وجہ سد رمق

کبھی افق کی تراوٹ کبھی ہے رنگ شفق
کبھی شراب، کبھی شیخ کی جبیں کا عرق

کبھی الست کے مستوں کی روح مینا ہے
کبھی علی کا مہکتا ہوا پسینا ہے

21
بزیر خاک ہے سرچشمہ نمو پانی

بروئے شاخ ہے، شوخی رنگ و بو، پانی
سموم تند میں دہقاں کی آرزو، پانی

بھری بہار میں پھولوں سے سرخرو، پانی
شفق کے رنگ سے تازہ یہ گل کھلاتا ہے

کہ آسماں کو حنائی زمیں بناتا ہے
22

جو بن گیا درشہوار یہ تو زینت تاج
کسی کی پیاس بجھادی دیا عطا کو رواج

مگر تضاد پسندی بھی ہے شریک مزاج
یہ معتدل حرکت یہ تلاطم امواج

ابل ابل کے اگر یہ کبھی بپھرتا ہے
زبان موج سے باتیں فلک سے کرتا ہے

23
چمن میں ہے تو یہ گل بن میں ہے تو خار بلا

زمین پر ہے تو دریا فضا میں ہے تو گھٹا
صدف کے بطن میں موتی، کنار جو ذرا

گلے میں ہے تو حیات اور گلے گلے تو فضا
لپک ہے آگ کی، سیلاب کی روانی ہے

اگر گرے تو ہے بجلی، پھرے تو پانی ہے
24

دوا میں ہے تو یہ حنظل، غذا میں ہے تو عسل
جو باغ میں ہے تو لالہ، جو رود میں تو کنول

جو کاہ میں ہے تو دلکش، جو راہ میں تو خلل
جو نہر میں ہے تو شربت، جو زہر میں تو اجل

کبھی ہے برف، کبھی کشتئ دخانی ہے
عجب جمود کا عالم، عجب روانی ہے

25
ذوی العقول میں شامل نہیں یہ نیک نہاد

مگر تمیز بدونیک کی ہیں راہیں یاد
بہاؤ ایک ہے، وقت ایک اور اثر متضاد

برائے خیر ہے رحمت، برائے شرجلاد
جو حق ہے پار تو باطل ہے غرق یا کہ نہیں

جناب نوح! کہو، ہے یہ فرق یا کہ نہیں
26

سمائے سب کی رگ و پے میں اور جدا بھی رہے
فرازسر بھی چڑھے، اور زیر پا بھی رہے

رفیق شاہ بنے، مونس گدا بھی رہے
بہا بہا بھی پھرے، اور بے بہا بھی رہے

زمیں پہ اس کا ہے گھر، چوٹیوں پہ بستا ہے
عجیب بات کہ انمول اور سستا ہے

27
کھلی فضا میں یہ راتیں گزارنے والا

خمار سر خوشی و بے خودی کا متوالا
جو انجماد کے نقطے پر آئے تو ژالا

جو پھیل جائے تو کہرے کی گود کا پالا
بڑھے جو حد سے نہ اپنی، تو بارہ ماسا ہے

جو سر اٹھائے تو پانی کا یہ بتاسا ہے
28

کوئی ہوں، کیسے بھی ہوں، بے شعور، اہل شعور
غنی، غریب، قوی، ناتواں، شکور، کفور

لہو غریبوں کا پی پی کے فربہ و مغرور
تباہ کردہ ٔرسم معاشرہ، مزدور

یہ سب جہاں ہیں مساوی وہ موڑ ہے پانی
ربوبیت کے عمل کا نچوڑ ہے پانی

29
نقیب اردی و مشاطہ ربیع و خریف

جمیل، صاف، مصفا، حسیں، لطیف، نظیف
صدف میں گوہر یکتا، خزف میں آب کثیف

طبیعت اس کی ملایم، مزاج اس کا شریف
جو شکل پوچھیے کیسی ہے جسم کیسا ہے

تو ہر جگہ پہ یہ ویسا ہے ظرف جیسا ہے
30

اچھل رہا ہے کہیں اور چھلک رہا ہے کہیں
ابل رہا ہے کہیں، اور بھٹک رہا ہے کہیں

چمک رہا ہے کہیں اور جھلک رہا ہے کہیں
ہے سربلند کہیں، سر پٹک رہا ہے کہیں

نہیں پسند رعونت اسے زمانے کی
تلاش کرتا ہے راہیں زمیں پہ آنے

31
صفت ہے جس کی تواضع، یہ ہے وہ پاک گہر

کریں بلند تو پھر جھک کے رکھ دے خاک پہ سر
یہ عاجزی ہے مگر رعب اس سے بھی بڑھ کر

کہ ناچتے ہیں بھنور رات دن اشاروں پر
بہ انکسار ملے چاہے سب زمانے سے

مگر یہ دب نہیں سکتا کبھی دبانے سے
32

یہ رحمت ابدی ہے نہ ہو جو طغیانی
اسی کی بوند میں رقصاں ہے کشف بارانی

گھٹا میں دیکھیے قطروں کی اس کے جولانی
خم شراب پہ جس سے پڑے گھڑوں پانی

یہ کیاریوں میں چمک کر گہر سے جڑتا ہے
بلائے قحط سے یہ بیچ کھیت لڑتا ہے

33
گیاہ خشک میں روح نمو، نمی اس کی

دعا و ذکر کی دعوت ہے، برہمی اس کی
نماز خاص کی تحریک ہے، کمی اس کی

ثنا کرے بلب حمد، آدمی اس کی
لیے ہوئے ہے جو سینے میں برق سینا کو

پڑھائے جاتا ہے دو قل کا ورد مینا کو
34

حلاوت مئے کوثر ہے اس کی شیرینی
ہے اس سے گردگلوں میں جو ہے مہک بھینی

دھنک حسیں ہے پر اک عیب بھی آئینی
کجی ہے اس میں اور اس میں کمال رنگینی

جہاں سحاب سا سقائے فیض جاری ہے
اسی کے تحت وہ تنظیم آبداری ہے

35
رواں دواں ہے یہی بطن خاک میں پیہم

یہی ہے لذت انگور و کیف ساغر جم
عطیہ ہائے خدا میں ہے یہ خدا کی قسم

عطا کی آن، سخا کا حشم، کرم کا بھرم
یہ فیض دیکھے تو سونا ورق ورق ہوجائے

یہ جود سن لے تو دریا عرق عرق ہوجائے
36

نہ پوچھیے کہ رسا ہے کہاں کہاں پانی
کہیں نہاں ہے نظر سے کہیں عیاں پانی

جہاں جہاں یہ جہاں ہے، وہاں وہاں پانی
وہاں حیات معطل، نہیں جہاں پانی

فضا و کوہ میں حاضر ہے فرش پر موجود
نبیؐ کے ہاتھ دھلانے کو عرش پر موجود

37
گلوں کی پنکھڑیوں میں اسی سے رس قائم

نمو کی لہر ہے جس میں رواں وہ نس قائم
اسی کی وجہ سے برگ و ثمر کا جس قائم

اسی کے دم سے ہیں سانسیں نفس نفس قائم
وہ ہیں اسی سے فضاؤں میں جو ہوائیں ہیں

ہر ایک بوند کی مٹھی میں دو ہوائیں ہیں
38

یہ دو ہوائیں تشخص میں دو ہیں اور پھر ایک
مظاہرے ہیں الگ مرکز مظاہر ایک

یہ برق و باد کے ہیں مختلف مناظر ایک
جدا جدا ہے اثر، فاعل ومؤثر ایک

دوئی ہے صاف عیاں اور ظہور واحد ہیں
یونہی علیؑ و پیمبرؐ بھی نور واحد ہیں

39
یہ قلب میں ہے سکوں، جسم میں ہے نشوونما

جگر میں تاب وتواں پتلیوں میں نوروضیا
بصر فروز و بصیرت فزود و جاں افزا

بہشت پرور وطوبیٰ نواز و کوثر زا
یہ اس شراب میں شامل ولا کے ہاتھ سے ہے

جو مومنین کی قسمت خدا کے ہاتھ سے ہے
40

کبھی عمارت گردوں جناب ہے پانی
کبھی خرابی ٔدارالخراب ہے پانی

کبھی ہے برق کبھی آب و تاب ہے پانی
جو اعتدال نہ ہو اک عذاب ہے پانی

کسی کی آنکھ کا پانی ذرا جو ڈھل جائے
نظام عصمت و اخلاق ہی بدل جائے

41
نبیؐ کے سر پہ جو رہتا تھا ابر کا سایا

نظر کو آپ کا سایہ کہاں نظر آیا
یہ معجزہ جو کرامت خدا نے فرمایا

تو اس کو حجت پیغمبری بھی ٹھہرایا
نگاہ خلق میں یہ ابر ہے، جو پانی ہے

مری نظر میں نبوت کی یہ نشانی ہے
42

کبھی جو رحمت باری کی شان دکھلائے
زمیں پہ خلد سے نزہت کو کھینچ کر لائے

جو کف اگل کے تلاطم بکف کبھی آئے
عرق میں نوحؑ کا طوفان غرق ہوجائے

خدا کا فضل ہے، قہر قدیر ہے پانی
مطیع شاہ بشیر و نذیر ہے پانی

43
جو موج میں ہے تو گویا چنا ہوا جامہ

حباب میں ہے تو آب رواں کا عمامہ
قلم میں ہے تو نوید نگارش نامہ

دوات میں ہے تو سجدہ گزار ہر خامہ
رکا رہے تو مزاج خسیس ہے پانی

رواں ہو جب تو زبان انیس ہے پانی
44

یہ آج جو ہے قوام حیات میں شامل
رگوں میں خون میں تخمیر ذات میں شامل

ازل سے آب وگل کائنات میں شامل
عمل کی راہ سے ہے معجزات میں شامل

یہ جسم در ہے جو اجرام آسمانی پر
قوی ہے کوہ سے بھی اور بنا ہے پانی پر

45
اگرچہ نرم مزاجی ہے اس کی سب پہ عیاں

مگر ہے سخت بھی اتنا پہاڑ پر ہے گراں
ابل ابل کے کبھی ہو جو یہ رواں ودواں

ہوا ہو گرد تو آندھی کے ہوش ہوں پراں
جو کوہ سامنے ہوں تیوریوں پہ بل ڈالے

تو دست موج کی چٹکی سے یہ مسل ڈالے
46

فضا میں تھی جو ہوا روز و شب پراگندا
گراں تھا آب پہ یہ صبح و شام کا دھندا

گلے میں باد بہاری کے ڈال کے پھندا
بنا لیا اسے آزادہ گام سے بندا

عصائے حضرت موسیٰ جو یاد آتا ہے
ہر ایک چوب کو اب تک یہ سر چڑھاتا ہے

47
جو آکے غیر کوئی اس کی بزم میں ہو دخیل

ابل پڑے یہ بغیظ و غضب بصورت نیل
تھپیڑے مار کے کردے ڈبوڈبو کے ذلیل

سوائے شاخ شجر وہ خفیف ہو کہ ثقیل
عصائے حضرت موسی جو یاد آتا ہے

ہر ایک چوب کو اب تک یہ سر چڑھاتا ہے
48

گلاب نسترن، ویاسمین، مولسری
گل انار، مدن بان، رات کی رانی

سدا بہار، گل آفتاب، داؤدی
گڑھل، کنول، گل عباس، جعفری، خیری

چمن چمن جو یہ کھل کھل کے رنگ لائے ہیں
یہ رنگ رنگ کے پانی نے گل کھلائے ہیں

49
کمان، تیر، سروہی، سنان، بھال، خدنگ

چھری، کٹار، فلاخن، عصا، طمنچہ، سنگ
کمند، گرز، شکنجہ، بنوٹ، بانک، تفنگ

حسام شعلہ مزاج، آبدار، صاعقہ رنگ
برس پڑیں تو نہ ٹوٹے گی دھار پانی کی

سپر ہے رحمت پروردگار پانی کی
50

خلیج، نہر، ندی، جوئبار، جھیل، کنواں
غرض جہاں یہ مکیں ہو، جہاں ہو اس کا مکاں

اٹھاکے ٹھوس قدم جب بھی کوئی آئے وہاں
یہ اس کو دل میں بٹھائے نہ طبع پر ہو گراں

ملے جو ظرف کا ہلکا اچھال دے اس کو
بہا بہا کے کنارے پہ ڈال دے اس کو

51
جو پھینک دے کوئی اس کو بذلت و خواری

وہ غم میں ہو، تو کرے پھر یہ اس کی غمخواری
ہر ایک کافر و مسلم سے ہے رواداری

نبیؐ و آل نبیؐ کا یہ فیض ہے جاری
جناب فاطمہؑ زہرا کا مہر ہے پانی

جو ان سے بغض رکھے اس کو زہر ہے پانی
52

جو ریگ گرم میں دم بھر نہ یہ کسی کو ملے
تڑپ کے قافلۂ تشنہ کام دم توڑے

جو کاروان مدینہ کی چھاگلوں میں رہے
عطش میں حر کے رسالے کو زندگی بخشے

فرات میں ہے تو ارماں کسی حزینہ کا
چچا کی مشک میں ہے آسرا سکینہ کا

53
جو گھر میں ہو تو گھرانے کا ہے یہ مونس جاں

کنویں میں ہو تو کل اطراف میں ہے فیض رساں
جو چشمہ سار سے پھوٹے، جونہر میں ہو رواں

تو فیضیاب سب انسان و جانور یکساں
ادھر سے شدت گرما میں جو گزرتے ہیں

تو قافلے سرساحل قیام کرتے ہیں
54

تمام حاکم و محکوم و منعم ونادار
تمام کافر و دیندار و زاہد و بدکار

و حوش و طیر و بزوگرگ و مرکب و اسوار
ہیں بے مزاحمت اس وقف عام سے سرشار

روا ہر اک کے لیے بے گزند ہے پانی
مگر حسینؑ کے بچوں پہ بند ہے پانی

55
یہ تین روز کے پیاسے کھڑے ہیں ڈیہوڑی پر

شباب پر ہے تمازت سموم کا ہے گزر
بھبک رہی ہیں فضاؤں، برس رہے ہیں شرر

فرات سامنے ہے، پی رہا ہے سب لشکر
قیامت اور یہ بچوں پہ ڈھارہے ہیں شقی

دکھا کے پیاس میں پانی بہارہے ہیں شقی
56

وہ مسلم جگر افگار کے یتیم پسر
وہ بنت فاطمہؐ کے لال عون اور جعفر

وہ جان شبر مسموم قاسم مضطر
وہ آسرا شہ مظلوم کا علی اکبرؑ


یہ سب پیمبرؑ اسلام کے نواسے ہیں

جو کلمہ گویوں کی بستی میں آج پیاسے ہیں
57

حبیب و مسلم و ضرغامہ و بریر و ہلال
زہیر قین جگر دار و وہب نیک خصال

جناب جون جری، دشت کربلا کے ہلال
یہ سب تھے تین شب و روز کی عطش سے نڈھال

لیے تھے سینوں میں لیکن یہ آرزو پیاسے
عدوئے آل کا پی جائیں گے لہو پیاسے

58
خیام پاک میں ذریت نبیؐ بے آب

کہ جن میں زینبؑ و کلثومؑ دلفگار ورباب
پھر ان کی گود میں اطفال مضطر و بیتاب

سکینہ پیاس سے غش میں پڑی ہیں سینہ کباب
جو چونکتی ہیں نکلتا ہے منہ سے یا عباسؑ

کہیں سے پانی منگا دیجیے چچا عباسؑ
59

ہے ایک خیمہ عصمت میں بیکس و مظلوم
وہ ایک جوان جو بیمار و مضطر و مغموم

ولی و زاہد و سجاد و عابد و معصوم
مریض تب سے جلے اور ہو آب سے محروم

وفور کرب میں غش سے جو آنکھ کھلتی ہے
زبان خشک کے کانٹوں میں پیاس تلتی ہے

60
پڑا تھا جھولے میں اک شیر خوار جان علیؑ

یہ چھ مہینے کی جان اور بلائے تشنہ لبی
لگی تھی پیاس سے ہچکی، ڈھلا تھا منکا بھی

یہ ضعف تھا کہ نہ کھلتی تھی آنکھ اصغر کی
بلکنا چاہتے تھے اور بلک نہ سکتے تھے

حسینؑ یاس سے بچے کے منہ کو تکتے تھے
61

جو پوچھیے کہ یہ معصوم کب سے تھے بے آب
تو خیمے میں شب ہشتم بھی آب تھا نایاب

بریر لائے تھے مشکیزہ بھر کے جب تو شتاب
نہ جانے کب سے تھے بچے عطش سے سینہ کباب

سب آکے ٹوٹ پڑے جب نظر پڑا پانی
کشاکشی میں کھلی مشک، بہ گیا پانی

62
تڑپ کے رہ گئے اطفال سید کونین

کیا وہ نوحہ و ماتم کہ سن کے روئے حسینؑ
وہ مشک بیچ میں، بچے وہ گرد، لب پہ وہ بین

کسی کی لاش پہ ہوتا ہے جیسے شیون و شین
نمی سے آتش دل میں کمی جو ہوتی تھی

سکینہ مشک پہ رخسار رکھ کے روتی تھی
63

وہ شب گزرنے پہ آئی جو آٹھویں کی سحر
ہوئے تھے سوکھ کے کانٹا وہ لب جو تھے گل تر

عجب ہے پیاس سے تھی جن کی جان ہونٹوں پر
وہ تین روز جیے اور تشنہ لب کیوں کر

یہ کیا تھا جس نے انہیں اس قدر دلیر کیا
کہ تشنگی سے لڑے، فطرتوں کو زیر کیا

64
عطش سے گرچہ تھے برہم، مزاج شکر پسند

یقین جام شہادت سے تھے مگر خورسند
رضائے حق پہ تھ ے شاکر، وہ صبر کے پابند

مگر خیام میں فریاد العطش تھی بلند
یہ تازیانہ ٔگریہ، سوال آب نہ تھا

جھنجھوڑتے تھے شقاوت کو اضطراب نہ تھا
65

دہم کی صبح کو یہ تشنگی کا عالم تھا
زباں تھی اینٹھی ہوئی، خشک، خار دار گلا

جو بات کرتے تھے لگتا تھا منہ میں نشترسا
رجز کا وقت جو آیا بہا دیے دریا

بڑھے جو سیل کی صورت اٹھا کے سینوں کو
ڈبو دیا عرق شرم میں لعینوں کو

66
اٹھا اٹھا کے حساموں کی آب سے طوفاں

پہنچ پہنچ گئے ساحل کے پاس شیر زیاں
وہیں تو نہر تھی جاری یہ لڑرہے تھے جہاں

نظر اٹھا کے بھی دیکھا نہ سوئے آب رواں
بڑھا دیا تھا بہت ضبط نے وقار ان کا

بتولؑ کو لب کوثر تھا انتظار ان کا
67

پھر اس کے بعد یہ منظر بھی فوج نے دیکھا
کہ اک جری درخیمہ سے سوئے نہر چلا

علم تھا دوش مبارک پہ ہاتھ میں نیزا
لیے تھا مشک بھی، جیسے کسی کا ہے سقا

مزاحمت سے نبٹتا ہوا لڑائی میں
سفیر تشنہ لباں تھا، رکا ترائی میں

68
پسینہ پونچھ کے انگڑائی لی جو ضیغم نے

جو رہ گئے تھے وہ پہرے بھی نہر سے بھاگے
اتر کے زین سے پہنے جری نے دستانے

کہ مشک بھرنے میں پانی نہ مس ہو ہاتھوں سے
وفا کا پاس جو کروٹ نہ اس گھڑی لیتا

فرات قبضے میں تھی چاہتا تو پی لیتا
69

جری نے مشک بھری اور تشنہ کام پھرا
پلٹ کے فوج نے نرغہ کیا بہ مکرودغا

ہوئے وہ ہاتھ قلم، مشک پر بھی تیرلگا
علم کے ساتھ، یہ پانی گرا، وہ شیرگرا

ہوا نثار علم پر شہ مدینہ کے
لہو سبیل بنا، نام پر سکینہ کے

70
اب اک جوان تھا پیاسا، جو بہر جنگ چلا

بھگا کے فوج جو اظہار تشنگی کا کیا
زباں چسانے کو اپنی بڑھے امام ہدا

ملا دہن سے دہن، منہ پسر نے پیٹ لیا
کہا کہ ہائے یہ کلفت یہ امتحان حسینؑ

ہے چوب خشک سے بھی خشک تر زبان حسینؑ
71

یہ کہہ کے رن میں دوبارہ گئے، جہاد کیا
سناں جو کھائی تو صغرا بہن کو یاد کیا

مرادوں والے نے اماں کو نامراد کیا
پدر سے عرض یہ روکر بہ اعتماد کیا

نہ شکل دیکھے گا ناچیز جام کوثر کی
حضور پیاس نہ جب تک بجھے گی اصغرؑ کی

72
یہ کہتے کہتے پسینے جو موت کے آئے

پسر نے توڑ کے دم باپ پر ستم ڈھائے
جنازہ لے کے چلے شاہ بال بکھرائے

جواں کو لے کے گئے، شیر خوار کو لائے
خدا کی راہ میں ایثار کی جوٹھانی ہے

وہ لاش اٹھا چکے یہ لاش اب اٹھانی ہے
73

سپاہ شام کو صورت دکھا کے بچے کی
کہا کہ وہ بھی سنیں جو کہ ہوں شقی سے شقی

یہ چھ مہینے کا گل رو، یہ جان ننھی سی
ہمارے ساتھ ہے پامال جور تشنہ لبی

یزیدیو! یہ گل تر بہت نراسا ہے
قصور کچھ نہیں اور تین دن کا پیاسا ہے

74
یہ سن کے سب نے جو دیکھا نظر اٹھا کے ادھر

شقی بھی رو دیے دل تھام تھام کر اکثر
کمان اتنے میں کڑکی، بپا ہوا محشر

گلے پہ تیر لگا، مسکرا دیے اصغرؑ


حسینؑ بولے، میں اس ضبط کے فدا بیٹا
تمہاری پیاس بجھی، حلق ترہوا بیٹا؟

75
قبا پہ خون جو ٹپکا ہوئی یہ حیرانی

کہاں سے دھوئیں اسے پینے کو نہیں پانی
اور اس میں سب سے زیادہ تھی یہ پریشانی

کسے مدد کو پکارے بتولؐ کا جانی
نہ لشکرے، نہ سپا ہے، نہ کثرت النا سے

نہ قاسمے، نہ علی اکبرے، نہ عباسے
76

کوئی رفیق نہ ہمدم نہ مونس و یاور
فقط صغیر کا لاشہ تھا اور داغ جگر

علیؑ کی تیغ سے بولے امام جن و بشر
بس اب سنبھل کہ بناتے ہیں تربت اصغرؑ


یہ کہہ کے بار بلائے کثیر کھینچ لیا

پسر کے حلق سے صابر نے تیر کھینچ لیا
77

غضب کی جاہے کہ یہ کلفتیں اٹھائے حسینؑ
علیؑ کی تیغ سے خود اک لحد بنائے حسینؑ

اتارے قبر میں بیٹے کو باپ، ہائے حسینؑ
بجز رضا بقضا کچھ نہ لب پہ لائے حسینؑ


نہ تھا چھڑکنے کو پانی پسر کی تربت پر

چڑھائے آنسوؤں کے پھول ننھی تربت پر
78

خیال آب جو تھا یاد آگئے بھائی
نگاہ یاس ترائی سے جاکے ٹکرائی

زمیں لرز گئی غازی کی لاش تھرائی
تڑپ کے غیرت انسانیت یہ چلائی

ارے فرات کے کم ظرف و بد گہر پانی
نہ مل سکا علی اصغر کو ڈوب مر پانی


Don't have an account? Sign up

Forgot your password?

Error message here!

Error message here!

Hide Error message here!

Error message here!

OR
OR

Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link to create a new password.

Error message here!

Back to log-in

Close