(1)

یہ بات جھوٹ نہیں صدق کی صفا کی قسم
ترے ہی لطف کا وابستہ ہوں وفا کی قسم

عبث جو قسمیں ہے دیوے تو مصطفےٰؐ کی قسم
جناب پاک بتول و شہ ولا کی قسم

قسم حسن کی حسین ابن مرتضےٰ کی قسم
ترا ہوں خوار تری شان کی مجھے سوگند

مروں ہوں تجھ پہ تری جان کی مجھے سوگند
تجھی کو جپتا ہوں ایمان کی مجھے سوگند

یہی وظیفہ ہے قرآن کی مجھے سوگند
تجھی سے بندگی رکھتا ہوں میں خدا کی قسم

رہے ہے مدنظر تیری زلف و کاکل و خال
پھرا کرے ہے مری آنکھوں میں تری ہی چال

شبوں کو تیرا تصور دنوں کو تیرا خیال
مریض دل ہوں مرا عابدیں ہے شاہد حال

اسی ستم زدہ بیمار و بے دوا کی قسم
تجھے میں دیکھ تماشے کا کیا مہیا ہوں

خدا نے دی ہیں مجھے آنکھیں کیا میں اندھا ہوں
نصیب لطف نہ باقر کا ہو جو جھوٹا ہوں

دوچار حشر میں آفت سے ہوں جو ایسا ہوں
امام پنجتن اس اپنے پیشوا کی قسم

جو رو و مو ہو نظر میں تو صبح و شام کی سوں
پڑا ہو پاؤں کہیں تو ترے خرام کی سوں

کلام ہو کسی سے تو مجھے کلام کی سوں
جو سات پانچ ہو جی میں چھٹے امام کی سوں

غبار رہ ہوں ترا اس کے خاک پا کی قسم
کرے ہے لطف جو ٹک تو بحال آتا ہوں

وگرنہ آپ سے میں لمحہ لمحہ جاتا ہوں
ترے ہی واسطے یہ غم یہ غصہ کھاتا ہوں

گواہ دعوے کا کاظم کو اپنے لاتا ہوں
سچ اس کو مان تجھے اس کی ہے ولا کی قسم

جو تجھ کو خوش نہیں پاتے تو جان کھوتے ہیں
ہلاک ہونے پہ تجھ ہی سے راضی ہوتے ہیں

کبھو ہی آٹھ پہر میں ٹک ایک سوتے ہیں
ہمیشہ راتوں کو آٹھ آٹھ آنسو روتے ہیں

امام ضامن ثامن علی رضا کی قسم
گداے در ہوں تقی کا نقی کا ہوں مملوک

رکھوں ہوں عسکری کے لطف سے امید سلوک
طریق مہدی ہادی کا رکھتا ہوں مسلوک

جہاں کے لوگ ہیں مفلوک سارے یہ ہیں ملوک
قسم جو کھایئے ان چار بادشا کی قسم

نہ اپنی تیری بنی ہر زماں بگڑتے رہے
گمان بد سے سدا روٹھتے ہی لڑتے رہے

سرشک آنکھوں سے جیسے ستارے جھڑتے رہے
شبوں کو عذر میں نت آکے پاؤں پڑتے رہے

ملے جو دن کو یہی بیچ میں رہا کی قسم
گناہ پہنچے جو اثبات کو تو رکھیے معاف

کدورت اپنی عبث ایک بار کر چک صاف
ہر ایک رات کہاں تک بسان روز مصاف

نکال تیغ شتابی نہیں یہ حرف گزاف
درنگ کیا ہے مگر کھائی ہے جفا کی قسم

چمن میں میں جو پھرا ہوں تو سوکھوں جیسے پات
زبان کاٹ جو سوسن کے رنگ کی ہو بات

سیاہ روز ہوں میں گر کہیں رہا ہوں رات
گیا ہوں چل کے تو رکھتا ہوں تیرے ہاتھ پہ ہات

جو کچھ خیال ہو سر میں تو تیرے پا کی قسم
جفا و جور ہزاروں طرح کے سہتا ہوں

گداز غم سے ہو سب آنسوؤں میں بہتا ہوں
ہوئے ہیں برسوں کہ چپکا ہی بیٹھا رہتا ہوں

کہو ہو یہ جو کبھو خواہش اپنی کہتا ہوں
ابھی تو کھائی تھی اظہار مدعا کی قسم

جلوں ہوں شمع کے مانند تجھ کو پروا نہ
خبر تجھے مری حالت سے کچھ بھی ہے یا نہ

فقط ہوں سلسلۂ مو کا تیرے دیوانہ
کہے تو تیل میں میں ہاتھ ڈالوں جوں شانہ

جو پیچ ہو تو ترے کاکل دوتا کی قسم
سرشک میرؔ ہیں جس جاے ٹک نگہ جاوے

تمام پانی ہو دل کاش اس کا بہہ جاوے
تو محو آئینہ ہو وہ جفائیں سہہ جاوے

کہاں تلک ترا منھ دیکھ دیکھ رہ جاوے
کچھ اس کے منھ سے حیا کر تجھے حیا کی قسم


Don't have an account? Sign up

Forgot your password?

Error message here!

Error message here!

Hide Error message here!

Error message here!

OR
OR

Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link to create a new password.

Error message here!

Back to log-in

Close