در بیان دستخطی فرد

دستخطی فرد کا سنو احوال
بے دماغی سے میں تو دی تھی ڈال

ایک مشفق کو تھا ادھر کا خیال
مہربانی سے ان نے کھوج نکال

شیخ جی گاڑھے سو عجائب مال
شیخ کو اس بھی سن میں ہے گی ہوس

تنگ پوشی سے چولی جاہے چس
ہوگا سن شریف ساٹھ برس

دانت ٹوٹے گیا ہے کلہ دھس
دیکھ رنڈی کو بہہ چلے ہے رال

جامے کو خوب سا چناتے ہیں
خال رخسار پر بناتے ہیں

مہندی بھی پتلی سی لگاتے ہیں
ناز کرتے قدم اٹھاتے ہیں

دیکھا کرتے ہیں آرسی میں جمال
دل میں دھن ہے جو عیش و عشرت کی

پوچھتے ہیں دوائیں شہوت کی
باتیں ہیں رنڈیوں کی صحبت کی

دیکھے ہیں کوئی کتاب حکمت کی
کرتے ہیں بہمنین استعمال

محو رعنائی کتنے ہیں اللہ
مسی سے کرتے ہیں مسوڑھے سیاہ

رکھتے ہیں سرمہ پر ہمیشہ نگاہ
شانہ سے کام ہے گہ و بے گاہ

کپڑے نارنجی سر پہ اودی شال
(۶)

قیر و چرکیں لباس تنگ معاش
ساتھ رکھتے ہیں ایک موے تراش

قینچی لیتے ہیں گاہ و گہ منقاش
ہر سر مو پہ اس سے ہے پرخاش

لوگ کہتے ہیں شیخ ہے چنڈال
آشنا میرے بھی پرانے تھے

میں وے اک عمر اک ٹھکانے تھے
یار تھے دوست تھے یگانے تھے

صحبتیں تھیں بہم زمانے تھے
روز و شب ہمدگر تھی قال و مقال

اب وے مختار کے ہوئے مختار
ان پہ ٹھہرا ہے سلطنت کا مدار

وے ہی اس عہد میں ہیں کاربرآر
اس طرف سے مرا ہوا جو گذار

نکلے سن نام بہر استقبال
جب ملاقات درمیاں آئی

دستخطی فرد میں نے دکھلائی
لے کے میری تسلی فرمائی

اک نفر پاس اپنے رکھوائی
پھر لگے کہنے رکھیے استقلال

فرد نواب کو دکھاؤں گا
حال صاحب کا سب جتاؤں گا

ہے مقدر تو کر ہی لاؤں گا
لے کے دفتر میں آپ جاؤں گا

آگے میرے کسے سخن کی مجال
قدر والا تمھاری ہے معلوم

خلق خادم ہے اور تم مخدوم
اس سعادت سے جو رہے محروم

ہے یقیں یہ کہ وہ الاغ شوم
حشر کو ہوگا مرکب دجال

تم بنی فاطمہ ہو ہم ہیں غلام
ہے غلامی تمھاری اپنا کام

تم کو مسجود جانتے ہیں انام
تم سبھوں کے ہو پیشوا و امام

تم سے سب کو نجات کا ہے سوال
بارے رخصت کیا بصد اعزاز

اور کہا تم ہو خلق میں ممتاز
ہے تمنا کہ تم سے ہوں دمساز

دل ہمارا ہو کاش محو نیاز
کریے تم پر نثار جان و مال

شیخ نے کر سلوک حد سے زیاد
قید اندوہ سے کیا آزاد

دی بھلا روزگار کی بیداد
جان غم کش ہوئی نہایت شاد

کم ہوا کوئی روز سر سے وبال
پھر جو دو دن میں میں گیا ان پاس

شیخ جی نکلے ایک اشرالناس
نے وہ تعظیم و خلق نے وہ پاس

بولے کچھ زیر لب اداس اداس
رہ گیا چپ میں دیکھ کر یہ حال

میرے تیں بے دماغ جو پایا
سر کیا نیچے یعنی شرمایا

جب خجالت سے کچھ نہ بن آیا
تب بہانہ صداع کا لایا

پھر یہ بولا کہ کیوں ہے چہرہ لال
میں کہا وجہ ہے کہا کہیے

میں کہا جور کب تلک سہیے
چند پامال چرخ کج رہیے

جی میں ہے اب لگایئے پہیے
تاکہ گردوں کی کچھ ہو سیدھی چال

تھی جو تم سے توقع یاری
سو تو آئی ظہور میں ساری

ہوتی جو فرد دستخطی جاری
تو بھی یہ دن جو ایسے ہیں بھاری

کاٹتا یک طرف فقیر مثال
دستخطی فرد کا سنا جب نام

کہنے لاگا کہ اب قریب ہے شام
بیٹھنے کا ہوا ہے وقت تمام

پھر کسی روز کیجیے گا کلام
اب تو میرے نہیں حواس بحال

تھا جو سختی سے فقر کی ناچار
گھر گیا شیخ جی کے سو سو بار

نہ رہا کوئی فوج شہ میں یار
نہ کہا جن نے میرا حال زار

تنگ آیا میں مفلسی سے کمال
کچھ طرح اور جب نہ بن آئی

میں ہوا شیخ جی کا مجرائی
کھینچی کیا کیا انھوں کی مرزائی

پر تسلی مری نہ فرمائی
مفت عزت گئی ہوا پامال

ایک مدت تھی آج کل پر بات
اب تو ہے صبح اب ہوئی ہے رات

ہے بہت شیخ کی غنیمت ذات
جمع آدم میں اتنے کب ہوں صفات

مفتری و دروغی و محتال
ایک دن میں کہا جو ہو مضطر

کہیے اس در سے جاؤں اب کیدھر
ہنس کے بولے بہت تلطف کر

سر منڈائے ہو تم بھی اس گھر پر
آگے آئیں گے جتنے ہوں گے بال

راتوں کے تیں مصیبتیں گذریں
کیا دنوں کو قیامتیں گذریں

کچھ نہ پوچھو جو حالتیں گذریں
باتوں باتوں میں مدتیں گذریں

وعدہ دو چار دن نہ ماہ و سال
پھر جو اس فرد کا ہوا مذکور

کہنے لاگے کہ نائب دستور
جانتا ہے تمھیں کہ ہو مشہور

پر کہے ہے رکھو مجھے معذور
جاری کرنا ہے اس کا امر محال

آٹھ آنے ہیں شاہ پر بھاری
اس کے لوگوں ہی کی ہے اب خواری

آپ ہے تو یہ ہے گرفتاری
فوج ہے گی تو قحط کی ماری

کیونکہ جس جا رہے ہیں واں تھا کال
عمدے جو ہیں دنوں کو بھرتے ہیں

سو بھی اسباب گروی دھرتے ہیں
ہیں سپاہی سو بھوکے مرتے ہیں

لوہو پی پی کے زیست کرتے ہیں
ایک تلوار بیچے ہے اک ڈھال

(۲۸)
رہ گیا میں سو جی جلاتا ہوں

کچھ کہے کوئی سر ہلاتا ہوں
یعنی ہر اک کے تیں بلاتا ہوں

کام سرکار کا چلاتا ہوں
کارپرداز ہیں سفیہ و ضلال

بادشہ بھیک مانگتا آیا
روز روزینہ بند فرمایا

معتمد اپنا مجھ کو ٹھہرایا
سو برا بیچ میں میں کہلایا

جس کو دیکھو رکھے ہے مجھ سے ملال
ملکی اور سارے صاحبان تیول

پھرتے ہیں خوار ہوتے مجھ سے ملول
کہیے حضرت سے کچھ بھی ہو جو حصول

کوڑی دینا انھیں نہیں ہے قبول
آپھی مرتے ہیں ان کے اہل و عیال

یاں مرے در پہ یاروں کا ہے ہجوم
صبح سے شام تک رہے ہے دھوم

جو یہی ڈول ہے تو ہے معلوم
ایک دن با قدوم فرح لزوم

نکلے گا یاں سے شہ بہ جاہ و جلال
حاجت اک عالم اپنی لاتا ہے

جو ہے سو جان کھائے جاتا ہے
کون یاں راہ حرف پاتا ہے

اور جسے کوئی منھ لگاتا ہے
کاٹتا ہے وہ پہلے چومے گال

اس کے اوپر ہے شہ تماشائی
اور چاہے ہے خرچ بالائی

ہر طرف پھیلی ہے یہ رسوائی
کل چنانچہ ہمیں نظر آئی

لال خیمے کے گرد دو سہ پال
دینے کا ہو کہیں ٹھکانا بھی

جود کو چاہیے زمانہ بھی
یاں نہیں شہ کے گھر میں دانہ بھی

کبھو ہوتا ہے پینا کھانا بھی
ورنہ بھوکے رہے ہیں بیٹھے نڈھال

حال یہ ہے جو اس پہ ہو منظور
پھر بھی نواب سے کروں مذکور

گاہ باشد کہ ہو انھیں مقدور
پر سماجت ہے اب خرد سے دور

لطف کیا میں کہوں وہ دیویں ٹال
میں کہا بس بہت خراب ہوا

پردے میں واں سے بھی جواب ہوا
دل ہوا داغ جی کباب ہوا

بارے ہونا جو تھا شتاب ہوا
کٹ رہے گا مرا بھی یہ جنجال

دل سے اپنے بھی اب بھلا دیجے
فرد میری مجھے منگا دیجے

ان خیالات کو اڑا دیجے
بند چڑیا کے سے چھڑا دیجے

بس بچھایا بہت فریب کا جال
ہنس کے بولے کہ فرد ہے حاضر

اور سمجھیے نہ مجھ کو بھی قاصر
حال کا ہوں تمھارے میں ناظر

جمع فرماؤ خاطر عاطر
اب نہیں پھر یہ کام لوں گا سنبھال

تب سے اب تک وہ فرد لاتا ہوں
گاہ بے گاہ ان کے جاتا ہوں

وقت پاتا ہوں تو جتاتا ہوں
پر جواب ان سے صاف پاتا ہوں

اب کی باری کا ہے یہ حال و مآل


Don't have an account? Sign up

Forgot your password?

Error message here!

Error message here!

Hide Error message here!

Error message here!

OR
OR

Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link to create a new password.

Error message here!

Back to log-in

Close