فرار

By shakeel-azmiFebruary 29, 2024
میں کہ بچپن میں ایک دن گھر سے
ایسا بھاگا کہ بھاگتا ہی رہا
شہر در شہر بے گھری کا عذاب
آسماں میرے نام لکھتا رہا


میری خانہ بدوشیاں مجھ سے
کہہ رہی ہیں کہ ٹھہر جاؤں کہیں
اور کچھ تھک چکا ہوں اب میں بھی
چاہتا ہوں کہ ایک شب کے لئے


ٹھہر کر راستے میں دم لے لوں
اس سے پہلے کہ خیمہ نصب کروں
چند سایہ مرے تعاقب میں
دور ہی سے دکھائی دیتے ہیں


اور پھر بھاری بھاری قدموں کی
چاپ کانوں میں پڑنے لگتی ہے
فاصلہ بھی سمٹنے لگتا ہے
اور میں پھر سے پاگلوں کی طرح


ایک جانب کو دوڑ پڑتا ہوں
اور پھر سب ڈراؤنے سایہ
دھند کے پیچھے ڈوب جاتے ہیں
میں کہ اس بار بھی صدا کی طرح


ان کے چنگل سے بچ نکلتا ہوں
بچ نکلنا بھی اک عذاب سا ہے
سلسلہ ختم کیوں نہیں ہوتا
ایک جائے امان کی خاطر


کب تلک بھاگتا رہوں گا میں
94095 viewsnazmUrdu