گنبد حیات ایک اسطور

By abid-razaJanuary 14, 2025
بہت دن ہوئے
دیوتاؤں کی اک محفل رنگ و مستی میں
جب سرمدی زمزمہ سا اٹھا
کیف میں نیلگوں سا پیالہ


کہ جس میں مئے ارغوانی انڈیلی گئی تھی
کسی دست قدرت سے چھوٹا
الٹ کر زمیں پر گرا
اور


یہ آسماں بن گیا
ایک بے انت گنبد
کہ جس میں
کئی مہر و مریخ و مہتاب ٹانکے گئے


کہکشائیں بنائی گئیں
پھر اسی کاسۂ دہر سے
بادلوں کی نمی
خاک میں بھی نمو گیر ہونے لگی


زندگی اپنے خلیات میں کسمساتے ہوئے
خاک زادوں کے پیکر میں ڈھلنے لگی
اس زمیں کے جزیرے پہ
یہ خاک زادے تھے


جو دیکھتے دیکھتے
شاہ زادے ہوئے
چند ہی روز میں
کار گاہ جہاں


ان کی ٹھوکر میں آنے لگی
معتدل زندگی کوئے افراط کی سمت جانے لگی
اک توازن جو پہلے تھا
بے ربط ہوتا گیا


گاڑیوں انجنوں کارخانوں کی آلودگی سے دہکتے ہوئے
گرم صحرا میں
کثرت کی خواہش کہاں لے چلی
کیا ہوس ہے کہ نادان قابو میں آتی نہیں


دل قناعت کے رستے پہ رکتا نہیں
ایک لشکر کشی ہے یہاں
ہر طرف پھیلتا جا رہا ہے دھواں
اب کوئی دم میں بس


زہر آلود بادل برسنے کو ہیں
اس خرابے میں
ہر سمت اک باد مسموم چلنے کو ہے
دیوتا اپنے معبد میں محصور


مبہوت ہیں
اور ادھر
ابن آدم کا اگلا قدم
آسماں کی عمودی جہت توڑ دینے کو تیار ہے


دیکھنا اب یہ ہے
زندگی اپنے گنبد سے نکلی تو آخر کہاں جائے گی
اس غبارے سے باہر
یہ رہ پائے گی


19083 viewsnazmUrdu