جب ترے شہر سے گزرتا ہوں
By saifuddin-saifJuly 1, 2021
کس طرح روکتا ہوں اشک اپنے
کس قدر دل پہ جبر کرتا ہوں
آج بھی کارزار ہستی میں
جب ترے شہر سے گزرتا ہوں
اس قدر بھی نہیں مجھے معلوم
کس محلے میں ہے مکاں تیرا
کون سی شاخ گل پہ رقصاں ہے
رشک فردوس آشیاں تیرا
جانے کن وادیوں میں اترا ہے
غیرت حسن کارواں تیرا
کس سے پوچھوں گا میں خبر تیری
کون بتلائے گا نشاں تیرا
تیری رسوائیوں سے ڈرتا ہوں
جب ترے شہر سے گزرتا ہوں
حال دل بھی نہ کہہ سکا گرچہ
تو رہی مدتوں قریب مرے
کچھ تری عظمتوں کا ڈر بھی تھا
کچھ خیالات تھے عجیب مرے
آخر کار وہ گھڑی آئی
بار ور ہو گئے رقیب مرے
تو مجھے چھوڑ کر چلی بھی گئی
خیر قسمت مری نصیب مرے
اب میں کیوں تجھ کو یاد کرتا ہوں
جب ترے شہر سے گزرتا ہوں
گو زمانہ تری محبت کا
ایک بھولی ہوئی کہانی ہے
تیرے کوچے میں عمر بھر نہ گئے
ساری دنیا کی خاک چھانی ہے
لذت وصل ہو کہ زخم فراق
جو بھی ہو تیری مہربانی ہے
کس تمنا سے تجھ کو چاہا تھا
کس محبت سے ہار مانی ہے
اپنی قسمت پہ ناز کرتا ہوں
جب ترے شہر سے گزرتا ہوں
اشک پلکوں پہ آ نہیں سکتے
دل میں ہے تیری آبرو اب بھی
تجھ سے روشن ہے کائنات مری
تیرے جلوے ہیں چار سو اب بھی
اپنے غم خانۂ تخیل میں
تجھ سے ہوتی ہے گفتگو اب بھی
تجھ کو ویرانۂ تصور میں
دیکھ لیتا ہوں روبرو اب بھی
اب بھی میں تجھ کو پیار کرتا ہوں
جب ترے شہر سے گزرتا ہوں
آج بھی کارزار ہستی میں
تو اگر ایک بار مل جائے
کسی محفل میں سامنا ہو جائے
یا سر رہ گزار مل جائے
اک نظر دیکھ لے محبت سے
ایک لمحے کا پیار مل جائے
آرزوؤں کو چین آ جائے
حسرتوں کو قرار مل جائے
جانے کیا کیا خیال کرتا ہوں
جب ترے شہر سے گزرتا ہوں
آج میں ایسے مقام پر ہوں جہاں
رسن و دار کی بلندی ہے
میرے اشعار کی لطافت میں
تیرے کردار کی بلندی ہے
تیری مجبوریوں کی عظمت ہے
میرے ایثار کی بلندی ہے
سب ترے درد کی عنایت ہے
سب ترے پیار کی بلندی ہے
تیرے غم سے نباہ کرتا ہے
جب ترے شہر سے گزرتا ہوں
تجھ سے کوئی گلہ نہیں مجھ کو
میں تجھے بے وفا نہیں کہتا
تیرا ملنا خیال و خواب ہوا
پھر بھی نا آشنا نہیں کہتا
وہ جو کہتا تھا مجھ کو آوارہ
میں اسے بھی برا نہیں کہتا
ورنہ اک بے نوا محبت میں
دل کے لٹنے پہ کیا نہیں کہتا
میں تو مشکل سے آہ بھرتا ہوں
جب ترے شہر سے گزرتا ہوں
کوئی پرسان حال ہو تو کہوں
کیسی آندھی چلی ہے تیرے بعد
دن گزارا ہے کس طرح میں نے
رات کیسے ڈھلی ہے تیرے بعد
شمع امید صرصر غم میں
کس بہانے جلی ہے تیرے بعد
جس میں کوئی مکیں نہ رہتا ہو
دل وہ سونی گلی ہے تیرے بعد
روز جیتا ہوں روز مرتا ہوں
جب ترے شہر سے گزرتا ہوں
لیکن اے ساکن حریم خیال
یاد ہے دور کیف و کم کہ نہیں
کیا کبھی تیرے دل پہ گزرا ہے
میری محرومیوں کا غم کہ نہیں
میری بربادیوں کا سن کر حال
آنکھ تیری ہوئی ہے نم کہ نہیں
اور اس کارزار ہستی میں
پھر کبھی مل سکیں گے ہم کہ نہیں
ڈرتے ڈرتے سوال کرتا ہوں
جب ترے شہر سے گزرتا ہوں
کس قدر دل پہ جبر کرتا ہوں
آج بھی کارزار ہستی میں
جب ترے شہر سے گزرتا ہوں
اس قدر بھی نہیں مجھے معلوم
کس محلے میں ہے مکاں تیرا
کون سی شاخ گل پہ رقصاں ہے
رشک فردوس آشیاں تیرا
جانے کن وادیوں میں اترا ہے
غیرت حسن کارواں تیرا
کس سے پوچھوں گا میں خبر تیری
کون بتلائے گا نشاں تیرا
تیری رسوائیوں سے ڈرتا ہوں
جب ترے شہر سے گزرتا ہوں
حال دل بھی نہ کہہ سکا گرچہ
تو رہی مدتوں قریب مرے
کچھ تری عظمتوں کا ڈر بھی تھا
کچھ خیالات تھے عجیب مرے
آخر کار وہ گھڑی آئی
بار ور ہو گئے رقیب مرے
تو مجھے چھوڑ کر چلی بھی گئی
خیر قسمت مری نصیب مرے
اب میں کیوں تجھ کو یاد کرتا ہوں
جب ترے شہر سے گزرتا ہوں
گو زمانہ تری محبت کا
ایک بھولی ہوئی کہانی ہے
تیرے کوچے میں عمر بھر نہ گئے
ساری دنیا کی خاک چھانی ہے
لذت وصل ہو کہ زخم فراق
جو بھی ہو تیری مہربانی ہے
کس تمنا سے تجھ کو چاہا تھا
کس محبت سے ہار مانی ہے
اپنی قسمت پہ ناز کرتا ہوں
جب ترے شہر سے گزرتا ہوں
اشک پلکوں پہ آ نہیں سکتے
دل میں ہے تیری آبرو اب بھی
تجھ سے روشن ہے کائنات مری
تیرے جلوے ہیں چار سو اب بھی
اپنے غم خانۂ تخیل میں
تجھ سے ہوتی ہے گفتگو اب بھی
تجھ کو ویرانۂ تصور میں
دیکھ لیتا ہوں روبرو اب بھی
اب بھی میں تجھ کو پیار کرتا ہوں
جب ترے شہر سے گزرتا ہوں
آج بھی کارزار ہستی میں
تو اگر ایک بار مل جائے
کسی محفل میں سامنا ہو جائے
یا سر رہ گزار مل جائے
اک نظر دیکھ لے محبت سے
ایک لمحے کا پیار مل جائے
آرزوؤں کو چین آ جائے
حسرتوں کو قرار مل جائے
جانے کیا کیا خیال کرتا ہوں
جب ترے شہر سے گزرتا ہوں
آج میں ایسے مقام پر ہوں جہاں
رسن و دار کی بلندی ہے
میرے اشعار کی لطافت میں
تیرے کردار کی بلندی ہے
تیری مجبوریوں کی عظمت ہے
میرے ایثار کی بلندی ہے
سب ترے درد کی عنایت ہے
سب ترے پیار کی بلندی ہے
تیرے غم سے نباہ کرتا ہے
جب ترے شہر سے گزرتا ہوں
تجھ سے کوئی گلہ نہیں مجھ کو
میں تجھے بے وفا نہیں کہتا
تیرا ملنا خیال و خواب ہوا
پھر بھی نا آشنا نہیں کہتا
وہ جو کہتا تھا مجھ کو آوارہ
میں اسے بھی برا نہیں کہتا
ورنہ اک بے نوا محبت میں
دل کے لٹنے پہ کیا نہیں کہتا
میں تو مشکل سے آہ بھرتا ہوں
جب ترے شہر سے گزرتا ہوں
کوئی پرسان حال ہو تو کہوں
کیسی آندھی چلی ہے تیرے بعد
دن گزارا ہے کس طرح میں نے
رات کیسے ڈھلی ہے تیرے بعد
شمع امید صرصر غم میں
کس بہانے جلی ہے تیرے بعد
جس میں کوئی مکیں نہ رہتا ہو
دل وہ سونی گلی ہے تیرے بعد
روز جیتا ہوں روز مرتا ہوں
جب ترے شہر سے گزرتا ہوں
لیکن اے ساکن حریم خیال
یاد ہے دور کیف و کم کہ نہیں
کیا کبھی تیرے دل پہ گزرا ہے
میری محرومیوں کا غم کہ نہیں
میری بربادیوں کا سن کر حال
آنکھ تیری ہوئی ہے نم کہ نہیں
اور اس کارزار ہستی میں
پھر کبھی مل سکیں گے ہم کہ نہیں
ڈرتے ڈرتے سوال کرتا ہوں
جب ترے شہر سے گزرتا ہوں
78577 viewsnazm • Urdu