رصد گاہ

By abid-razaJanuary 15, 2025
ہمیشہ سوچتا ہوں میں
یہ اک نیلی سی چھتری
جو مرے سر پر تنی ہے
اس کے پیچھے


اور کیا ہے
کبھی میں خواب کے سیارچے میں بیٹھ جاتا ہوں
عقیدت گاہ سے مانگی ہوئی عینک لگاتا ہوں
گماں کے اسپ تازی پر کمال برق رفتاری دکھاتا ہوں


خرد کے گنبدوں میں سرگراں
افلاک کی وسعت
ستاروں اور سیاروں کی ٹولی
فصیل دہر میں بنتے بگڑتے


یہ سیہ روزن
میں ان کے پار جانا چاہتا ہوں
مگر اک بار پھر یہ سوچتا ہوں
ابھی تو مجھ کو اپنے پیر کے نیچے کی مٹی کا پتہ معلوم کرنا ہے


میں ساتوں آسماں کی گردشوں سے کیوں پریشاں ہوں
کہ اپنی یہ زمیں بھی تو
اسی اونچے فلک میں ہی معلق گھومتی ہے
13257 viewsnazmUrdu